کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 128
﴿ وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ](الحشر:9) "اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ وہ محتاج ہوں۔" رہی یہ بات کہ اپنے جائز حق کی تعیین کیا ہو تو اس کے متعلق قرآن مجید کا حکیمانہ ارشاد ہے: ﴿ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ ،وَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَهٗ﴾(القیامۃ:14-15) "کہ انسان خواہ کتنی ہی معذرتیں کرے، وہ اپنے نفس (کے معاملات) کو خوب پہنچانتا ہے۔" انسان کا ضمیر اس کے اپنے حق میں بالکل جائز اور درست فیصلہ کرسکتا ہے بشرطیکہ انسان اس ضمیر کو مسخ کرکے ڈھیٹ پن کا ثبوت نہ دے۔ مذکورہ بالا بحث سے یہ بات عیاں ہے کہ سادگی اور کفایت شعاری کے ساتھ (معاشی اور معاشرتی طور پر) گہرا تعلق ہے۔ تاریخِ اسلام میں سے متعدد مثالیں کفایت شعاری کے متعلق پیش کی جا سکتی ہیں۔ جنگ احزاب کے بعد مسلمان مالِ غنیمت کی وجہ سے پہلے کی نسبت کافی آسودہ حال ہوگئے تو دیگر مسلمانوں کی دیکھا دیکھی ازواجِ مطہرات نے بھی زیورات اور نان نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کردیا۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مطالبہ سے سخت گھٹن محسوس ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے ایک ماہ کے لئے گھر سے مسجد کے بالا خانے میں منتقل ہوگئے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس صورتِ حال سے سخت پریشان تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو الگ الگ