کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 11
یا تو خود کاشت کرے ورنہ اپنے کسی دوسرے بھائی کو کچھ معاوضہ لیے بغیر مفت کاشت کرنے کو دے دے ۔ اور جوازِ مزارعت کا باب یوں کھلتا ہے کہ کاشتکاری تو صرف تنومند انسان ہی کر سکتا ہے جبکہ زمین کے مالک ازروئے قانونِ وراثت بچے بھی ہو سکتے ہیں، بوڑھے بھی، عورتیں بھی اور معذور و ناتواں بھی۔ اور یہ لوگ ضرورت مند بھی ہو سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی زمین کرایہ پر یا بٹائی پر دے کر اپنا پیٹ پال سکیں۔ لہٰذا اگر عدم جواز مزارعت کو قانون کا درجہ دیا جائے تو یہ قانون کسی دور میں بھی زمانہ کے ساتھ چل نہیں سکتا اور یہ بات اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔ اس مختصر سے کتابچہ میں فریقین کے دلائل کا کتاب و سنت کی روشنی میں موازنہ کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ فاضلہ دولت اگر جائز ہے تو کن شرائط کے تحٹ جائز ہے اور مزارعت کن حالات میں جائز ہوتی ہے اور کن میں ناجائز؟ یعنی مزارعت کے ناجائز اور ناجائز ہونے کی کیا کیا مختلف صورتیں ہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ دولت مند یا زمیندار مسلمان یہ معلوم کر سکے گا کہ وہ اسلامی نقطہ نظر سے کس مقام پر کھڑا ہے؟ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دولت کی محبت اور اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ ہمیں جائز ذرائع سے دولت سے نوازے تو پھر ہم اسے خیر ہی سمجھیں اور اس کا شکریہ بھی ادا کریں۔ پھر اللہ تعالیٰ ہمیں اس دولت کو خیر ہی کے کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے تاکہ یہ دولت ہمارے لیے وبالِ جان بننے کی بجائے بلندی درجات کا باعث ہو۔ آمین ثم آمین۔ عبدالرحمان کیلانی۔ دارالسلام وسن پورہ لاہور۔ 1988-8-15 یہ مقالہ سہ ماہی مجلّہ منہاج کی اشاعت جولائی 1988ء میں ایک ہی قسط میں چھپا تھا۔ اس کی افادیت عام کے پیش نظر اس میں تھوڑا بہت اضافہ کر کے اب کتابچہ کی صورت میں پیش خدمت ہے۔