کتاب: اسلام میں دولت کے مصارف - صفحہ 10
قطعی حرام قرار دیتا ہے جس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ سود کے معاملہ میں ایک فریق کا فائدہ اور دوسرے کا نقصان یقینی ہوتا ہے تو انہوں نے ہر اس معاملہ کو جس میں ایک کسی فریق کو فائدہ پہنچنے کا زیادہ امکان ہو، سود پر ہی منطبق کر کے اس کی حرمت کا فتویٰ دے دیا جیسے زمین کی بٹائی یا ٹھیکہ اور مکانوں یا دکانوں کے کرایہ جات وغیرہ اور حد یہ ہے کہ کچھ نیک نیت مسلمان بھی کم از کم مزارعت کی حد تک، اس کے عدمِ جواز کا فتویٰ دینے لگے۔
یہ درست ہے کہ اسلام میں فاضلہ دولت کو کچھ مستحسن چیز نہیں سمجھا گیا تاہم خود قرآن نے ہی اس فاضلہ دولت کو "خیر" کے لفظ سے بھی یاد کیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ فاضلہ دولت فی نفسہٖ مذموم چیز نہیں بلکہ اس کا اچھا اور برا ہونا اس کے اچھے یا برے استعمال یا عدم استعمال یعنی دولت پرستی اور بخل پر منحصر ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ فاضلہ دولت کے مفاسد اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ جبھی تو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے متعدد بار فرما دیا ہے کہ (اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ) لیکن سرمایہ داری کی فضاؤں میں پلا ہوا آج کا مسلمان اس بات کی طرف مطلق توجہ نہیں دیتا۔ زیادہ سے زیادہ اسے بس ایک ہی سبق یاد ہے اور وہ یہ کہ سال کے بعد زکوٰۃ ادا کرو۔ اس میں بھی حیلوں بہانوں سے جس قدر کمی ہو سکتی ہے یا گنجائش نکل سکتی ہے اس سے فائدہ اٹھا لو، باقی مال پاک اور طیب ہے۔ پھر سارا سال انفاق فی سبیل اللہ کی چنداں ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔
اس سبق نے اسے دولت سے محبت کرنے اور اسے جمع کرنے کے کئی طریقے سکھا دئیے ہیں جس سے اس میں سرمایہ داری اور سرمایہ پرستی کے تمام مفاسد اور اخلاقِ رذیلہ پیدا ہو گئے ہیں۔
جاگیرداری چونکہ افزائش دولت میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ لہٰذا اسلام زمین کے کرایہ کو بھی مستحسن نہیں سمجھتا بلکہ بہت سی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ مسلمان اپنی زمین