کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 9
اِسنادو متن کی چند بنیادی اصطلاحات ٭ حدیث لغوی مفہوم ضد القدیم ،ویستعمل فی اللغۃ أیضا حقیقۃ فی الخبر، قال فی القاموس:الحدیث:الجدید، والخبر ۳۶؎ لغوی اعتبار سے لفظ ِحدیث کا معنی ہے جدید ، یعنی یہ قدیم کی ضد ہے ۔ چونکہ قرآن قدیم ہے اور اس کے مقابلے میں احادیث جدید ہیں اس لیے مقابلہ احادیث ِنبویہ کو’حدیث ‘کا نام دیا گیا ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م۸۵۲ھ)نے یہی وضاحت فرمائی ہے ۔۳۷؎ ٭ امام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ)نے فرمایا ہے کہ ’’لغوی اعتبار سے حدیث قدیم کی ضد ہے ۔ ‘‘۳۸؎ ٭ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ)نے فرمایا ہے: وأما الحدیث فأصلہ ضد القدیم ۳۹؎ ’’حدیث کی اصل یہ ہے کہ وہ قدیم کی ضد ہے ۔ ‘‘ ٭ علامہ ابن جماعہ رحمہ اللہ (م ۷۳۳ ھ)نے بھی حدیث کو قدیم کی ضدکہا ہے ۔۴۰؎ ٭ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) نے بھی یہی نقل فرمایا ہے کہ حدیث قدیم کی ضد ہے ۔۴۱؎ ٭ ڈاکٹر محمود طحان حفظہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’ لغت میں حدیث کا معنی ہے کسی چیز کا نیا اورجدید ہونا ۔ اس کی جمع خلاف ِقیاس احادیث آتی ہے ۔ ۴۲؎ ٭ امام راغب رحمہ اللہ (م ۵۰۲ ھ)فرماتے ہیں : ’’لفظ حدیث ہی سے ایک لفظ الحدوث بھی ہے جس کا معنی ہیں کسی ایسی شے کا وجود میں آنا، جو پہلے نہ ہو، عام اس سے کہ وہ جوہر ہو یا عرض اورلفظ احداث کے معنی ایجاد کرنا یعنی وجود میں لاناہے۔ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعے پہنچے اسے حدیث کہاجاتا ہے ، برابرہے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بیداری میں ۔۴۳؎ ٭ لفظ ِحدیث کا لغوی معنی ’جدید‘ ہے ، اس پر قرآن کریم اور کتب حدیث میں بھی امثلہ موجود ہیں جیسا کہ ایک فرمانِ الٰہی ہے کہ ﴿ مَا یَاتِیْھِمْ مِنْ ذِکْرٍ مِن رَّبِّھِمْ مُحْدَثٍ ﴾ ۴۴؎ ’’ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آتی ہے.... الخ ‘‘ اسی طرح ایک روایت میں ہے: عن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ قال کنا نسلم فی الصلاۃ ونأمر بحاجتنا فقدمت علی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم وھو یصلی فسلمت علیہ فلم یرد علی السلام فأخذنی ما قدم وما حدث فلما قضی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم الصلاۃ قال ان اللّٰہ یحدث من أمرہ ما یشاء وان اللّٰہ جل وعز قد أحدث من أمرہ أن لا تکلموا فی الصلاۃ فرد علی السلام۴۵؎