کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 88
٭ ربیع بن خیثم رحمہ اللہ (م ۶۴ ھ) نے ایک روایت بیان کی کہ جو شخص یہ کلمات لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد ، یحیی ویمیت،وھو علی کل شیء قدیر ادا کرتا ہے اس کے لیے فلاں فلاں اجر ہے تو اِمام شعبی رحمہ اللہ (م ۱۰۳ ھ) نے ان پوچھا کہ تمہیں یہ حدیث کس نے بیان کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عمرو بن میمون (م ۷۵ ھ) نے۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ عمرو رحمہ اللہ (م ۷۵ ھ) کو یہ حدیث کس نے بیان کی؟ تو ربیع رحمہ اللہ (م ۶۴ ھ) نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے ۔۶؎ ٭ رواۃ ِ سند کی تحقیق کا سلسلہ یونہی جاری رہا حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ سند کے متعلق سوال ضروری ہو گیا، اس کے بغیر کوئی چارہ نہ رہا اور اس میں بالکل بھی غفلت نہ کی جاتی ۔ ٭ عتبہ بن حکیم رحمہ اللہ (م ۱۴۷ ھ) بیان کرتے ہیں کہ وہ اسحق بن ابی فروہ رحمہ اللہ (م ۱۴۴ ھ) کے پاس تھے اور ا ن کے پاس اِمام زہری رحمہ اللہ (م ۱۲۵ ھ) بھی موجود تھے۔ ابن ابی فروہ رحمہ اللہ (م ۱۴۴ ھ) نے بیان کرنا شروع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے یوں فرمایا ہے ۔ اس پر اِمام زہری رحمہ اللہ (م ۱۲۵ ھ) نے فوراً انہیں کہا: قاتلک اللّٰہ یا ابن أبی فروۃ ما أجرأک علی اللّٰہ ،ما تسند حدیثک ۷؎ ’’اے ابن ابی فروہ ! اللہ تمہیں تباہ کرے ! تم نے اللہ پر کتنی جرأت کی کہ تم اپنی حدیث کی سند بیان نہیں کرتے ۔ ‘‘ ٭ اِمام ابن ابی الزناد رحمہ اللہ (م ۱۷۴ ھ) نے فرمایا ہے کہ مجھے ہشام بن عروہ رحمہ اللہ (م ۱۴۴ ھ) نے کہا: إذا حدثت بحدیث،أنت منہ فی ثبت ، فخالفک انسان،فقل: من حدثک ھذا ؟ فانی حدثت بحدیث، فخالفنی فیہ رجل،فقلت:ھذا حدثنی بہ ابی فأنت من حدثک ؟ فجف۸؎ ’’جب تم کوئی حدیث بیان کرو ، تمہیں اس کے متعلق پورا وثوق حاصل ہو ، پھر کوئی انسان تمہاری مخالفت کرے تو اس سے پوچھو کہ تمہیں یہ حدیث کس نے بیان کی ہے ؟ چنانچہ میں نے ایک حدیث بیان کی ، پھر اس کے متعلق ایک آدمی نے میری مخالفت کی تو میں نے کہا کہ یہ حدیث تو مجھے میرے باپ نے بیان کی ہے تمہیں یہ حدیث کس نے بیان کی ہے ؟ تو وہ خشک ہو گیا ۔ ‘‘ ٭ اس طرح اہل علم کی نگاہوں میں سند کی اہمیت بڑھتی گئی اور اسے حدیث کا اہم ترین رکن اور دین کا حصہ قرار دے دیا گیا ۔ ٭ چنانچہ اِمام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م ۱۸۱ ھ) کا یہ قول معروف ہے: الإسناد من الدین،لولا الإسناد لقال من شاء ما شاء ۹؎ ’’ اِسناد دین کا حصہ ہیں ، اگر اِسناد نہ ہوتیں تو کوئی جو چاہتا کہتا پھرتا ۔ ‘‘ ٭ اسی طرح اِمام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م ۱۸۱ ھ) نے یہ بھی فرمایا ہے: بیننا وبین القوم القوائم یعنی الإسناد ۱۰؎ ’’ہمارے درمیان اور لوگوں کے درمیان (مضبوط) بنیادیں ہیں (یعنی اِسناد ہیں ) ۔ ‘‘ ٭ اِمام موصوف رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے: مثل الذی یطلب أمر دینہ بلا اِسناد کمثل الذی یرتقی السطح بلا سلم ۱۱؎ ’’جو دین کی کوئی بات بلاسند حاصل کرتا ہے اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی بغیر سیڑھیوں کے چھت پر چڑھنا چاہتا ہو ۔ ‘‘ ٭ اِمام سفیان ثوری رحمہ اللہ (م ۱۶۱ ھ) نے فرمایا ہے :