کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 79
کے حکم سے ابو الحقیق کے ایک بیٹے کو سزا دی کہ وہ اس خزانے کو بتلا دے جسے انہوں نے چھپا دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ مال سب خرچ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا،مال بہت تھا اور کوئی اتنا زیادہ وقت نہیں گذرا، ا س لئے تیری بات غلط ہے، آخر وہ خزانہ نکلوایا اور جیسے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جن پر چوری کا الزام تھا ، سزا دی کہ ان سے چوری کا مال برآمد کرالیں اور اگر اس پر بھی نہ نکلے تو تہمت لگانے والوں کو سزا دی جائے، اور بتلا دیا کہ یہی حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ جو شخص شریعت کو اور صحابہ رحمہم اللہ کے فیصلوں کو بنظر تامل دیکھے گا وہ پالے گا کہ وہ فہم و درایت سے پر ہیں اور جو شخص ان کے طریقے کو چھوڑ دے گا وہ لوگوں کے حقوق کو ضائع کرکے، شریعت کی طرف منسوب کرتا رہے گا۔۹۱؎ ٭ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ (م ۱۳۸۴ ھ) نے اپنی کتاب ’درایت تفسیری‘ میں اس بصیرت و فہم و فراست کو بھی درایت اجتہادی میں شامل کیا ہے جس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اس کی حیثیت قطعی نہ ہوگی، کیونکہ قاضی کے فیصلہ کے خلاف بڑی عدالتوں میں اپیل کی جاسکتی ہے۔ گذشتہ امثال و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاضی کی بصیرت و تجربے کی بناء پر حقیقت تک رسائی تو آسان ہوتی ہے، لیکن فیصلہ کی بنیاد بینہ پرہی ہوگی ،کیونکہ یہ حق نہیں کہ واقعہ کے تمام ظاہر پہلوؤں اور گواہوں کو نظر انداز کرکے قاضی صرف اپنی فہم و فراست اور تجربے وذوق کی بنیاد پر فیصلہ سنا دے۔اس طریقہ کار کو دنیا کی کسی عدالت نے آج تک قبول نہیں کیا،کجا کہ اسے حدیث مبارکہ کی صحت و ضعف کا معیار ٹھہرا دیا جائے۔ جیساکہ بیان الفوائد میں ہے: ’’بعض دفعہ اللہ اپنے بعض بندوں کو نبی کے ارشادات کی بلاغت اور آپ کے کلام کے اسلوب کا ایسا ادراک عطا فرما دیتے ہیں کہ جس کے ذریعے وہ خبر رسول کو یقینی طور پر پہچان لیتے ہیں ۔‘‘۹۲؎ ٭ مولانا تقی امینی رحمہ اللہ بھی حدیث کادرایتی معیار ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’حدیث میں روشنی اور تاریکی کی پہچان کے لئے فنی ذوق کی ضرورت ہے جس کے لئے درایت لازمی ہے اور دلیل میں علامہ بلقینی کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں کہ اگر ایک شخص کسی کی برسوں خدمت کرکے اس کی پسند و ناپسند سے واقفیت حاصل کرے۔ پھر کوئی اس کی پسندیدہ شے کے بارے میں کہہ دے کہ وہ اس کو ناپسند کرتا ہے تو سننے کے ساتھ ہی اس کو غلط قرار دے گا۔‘‘۹۳؎ دیگر علوم میں درایت جیساکہ گذر چکا کہ لفظ درایت کو ئی اصطلاح نہیں ، بلکہ ہر علم میں یہ اس علم کے مناسب معنوں کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ البتہ متاخرین کے ہاں درایت کو بطور اصطلاح تحقیق حدیث کے لیے استعمال کیا گیا ہے، لیکن وہاں بھی یہ استعمال تحقیق حدیث کے مناسب معنوں میں ہی ہوئی ہے، ناکہ متاخرین کی وہاں مراد متن کی تحقیق بذریعہ عقل یا اجتہاد وغیرہ ہے۔ چنانچہ آج کل جو کتب نحو وصرف وغیرہ میں منظر عام پر آرہی ہیں ان میں بھی لفظ درایت لغوی معانی میں استعمال کیا جارہا ہے۔ مثلا علم نحو کی مشہور کتاب ہدایۃ النحو کی معروف شرح درایت النحو کے عنوان سے عام دستیاب ہے۔ ........٭٭٭........