کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 78
صادر کرتا ہے، لیکن یاد رہے کہ فیصلہ کا اصل مدار یہ ذوق وتجربہ ، فہم وفراست اور قرائن واشارات نہیں ہوتے بلکہ یہ محض معاون کی حیثیت سے واقعہ کی گہرائی تک پہنچنے میں قاضی کو آسانی فراہم کرتے ہیں ۔
واضح رہے کہ یہ ذوق و تجربہ حدیث کی صحت و ضعف کے پہچان کے لئے ایک علامت تو ہوسکتا ہے۸۷؎ ، لیکن صرف ’اس کو‘ حدیث کی درایت کے لئے معیار ٹھہرانا اور اس پر انحصار کرتے ہوئے انسانی عقل و فراست کو بنیاد بنا کر محدثین رحمہم اللہ کی صدیوں کی محنت اور تحقیق کا انکار کرنا چنداں مناسب نہیں ۔ کیونکہ نزاع و فیصلہ کی صورت میں اعتبار ہمیشہ بینۃ کا کیا جائے گا جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (جن کی درایت پر تمام امت متفق ہے) نے لعان والے واقعہ میں صاف فرمایا تھا:
((لو رجمت أحدا بغیر بینۃ رجمت ھذہ)) ۸۸؎
’’اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو سنگسار کرتا تو اس عورت کو کرتا۔‘‘
٭ امام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ) نے اس حدیث کو باب قول النبی لوکنت راجما بغیر بینۃکے تحت درج کیا ہے۔
گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوق اور فہم و فراست کی حد کا تعین کردیا ہے کہ یہ حقیقت تک پہنچنے کی ایک علامت تو ہے لیکن فیصلہ کی بنیاد اس پر نہ ہوگی،لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم قضا میں قاضی کی فہم وفراست اور عقل وبصیرت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ فہم وفراست اور عقل وبصیرت ایک خاص ملکہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی قاضی کو عطا ہوتا ہے اور دیگر قرائن وعلامات سے اس نعمت کو مزید چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ اسی فہم و فراست کی بناء پر حضرت سلیمان 2 کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہے:
﴿ فَفَھَّمْنَاھَا سُلَیْمٰنَ وَکُلًّا آتَیْنَا حُکْمًا وَعِلْمًا ﴾ ۸۹؎
’’پس ہم نے فیصلہ (کرنے کا طریق) سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکیم اور علم بخشا تھا۔‘‘
قاضی کا قرائن وعلامات کے ذریعے سے نفس واقعہ کو پہچان لینا اور اپنے فہم وفراست کو استعمال میں لاتے ہوئے کسی واقعہ ایک حتمی شکل بناکر اس پر اپنا آخری فیصلہ صادر کردینا علم قضا میں درایت قضائی کہلاتا ہے۔
٭ امام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) نے اس کی وضاحت اعلام الموقعین میں اس طرح کی ہے۔
’’فہم و فراست کی دو ہی قسمیں ہیں جن سے انسان مفتی اور حاکم بن کر حق فتویٰ اور سچا حکم دے سکتا ہے۔ ایک نفس واقعہ کو صحیح طور پر سمجھ لینا، حقیقت تک قرائن، علامات اور نشانات سے پہنچ جانا اور پورا واقعہ ذہن نشین کرلینا۔ دوسرے اس واقعہ کا حکم کتاب اللہ اور سنت رسول سے سمجھ لینا پھر ایک کو دوسرے سے ملا دینا۔ پس جو شخص پوری کوشش سے دماغ پاشی کرے اور اپنی طاقت بھر محنت سے جدوجہد کرے تو یقینا اسے دو اجر ملتے ہیں ورنہ کم از کم ایک سے تو خالی نہیں ۔‘‘۹۰؎
یعنی کہ قاضی کا قرائن و علامات و نشانات کے ذریعے نفس واقعہ کو پہچا ن لینا اور پھر کڑیاں جوڑ کر حقیقت تک پہنچ جانا عدل و قضا میں درایت کہلاتا ہے،کیونکہ عالم وہی ہے جو واقعہ کی اصلیت کو پالے پھر خدا، رسول کے حکم کو سمجھ کر اس پر جاری کرے۔
جیسے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا گواہ آپ کے کرتے کے پیچھے کے رخ سے پھٹے ہوئے ہونے سے آپ کی صداقت و برا ء ت تک پہنچ گیا اور جیسے کہ سلیمان علیہ السلام نے یہ حکم دے کر، کہ چھری لاؤ میں اس بچے کے دو ٹکڑے کرکے ان دونوں دعوے دار ماؤں کے درمیان اسے تقسیم کردوں ، اصل ماں کو پہچان لیا اور جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس عورت سے جو خط لے کر جارہی تھی یہ فرما کر، یا تو وہ خط ہمارے حوالے کرو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتار کر تیری تلاشی لیں گے، خط کو حاصل کرلیا اور جیسے کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم