کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 77
کیا جاتاہے اور تاویل کا دارومدار استنباط پر ہے۔ یہی وجہ کہ متاخرین مفسرین جنہوں نے اپنی تفسیروں میں تفسیر بالروایہ والدرایہ دونوں کو جمع کیا ہے انہوں نے وہاں تفسیر بالدرایہ سے مراد ’تاویل اور تفسیر بالرائے‘ ہی کو مراد لیا ہے۔ مثلا امام شوکانی رحمہ اللہ (م ۱۲۵۰ ھ) نے اپنی شہرہ ٔآفاق تفسیر کا نام یوں تجویز فرمایا ہے: فتح القدیر فی فنَّی الروایۃ والدرایۃ بہرحال تفسیر کا انحصار محض پیروی اور سماع پر ہے اور استنباط ایسی چیز ہے جو کہ تاویل سے تعلق رکھتی ہے اسی لئے تفسیر میں منقولات پر اعتماد کیا جاتاہے اور تاویل کا دارومدار استنباط پر ہے۔ ٭ مشہور مفسر بغوی رحمہ اللہ (م ۵۱۰ ھ) اور الکواشی رحمہ اللہ (م ۶۸۰ ھ) کا قول ہے: ’’تاویل سے مراد آیت کو ایسے معنی کی طرف پھیرنا ہے جس کی اس میں گنجائش ہو۔ وہ مفہوم آیت کے سیاق و سباق سے ہم آہنگ ہو اور کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو۔ بخلاف ازیں کسی آیت کے شان نزول اور واقعہ متعلقہ کے ذکر و بیان کو تفسیر کہتے ہیں ۔‘‘۸۳؎ ٭ ابوطالب ثعلبی رحمہ اللہ (م ۴۲۷ ھ) نے تفسیر و تاویل کی وضاحت بڑے شاندار طریق سے کی ہے ، فرماتے ہیں : ’’تفسیر لفظ کی وضع کو بیان کرنے کا نام ہے خواہ حقیقتاً ہو یا مجازاً جیسے الصراط کی تفسیر’طرق‘ کے ساتھ اور صیب کی تفسیر مطر (بارش)کے ساتھ کرنا اور تاویل لفظ کے اندرونی (مدعا) کی تفسیر کا نام ہے اور یہ الاول سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں ’’انجام کار کی طرف رجوع لانا‘‘ لہٰذا تاویل حقیقتاً ’مراد‘ کی خبر دینا ہے۔ اور تفسیر ’دلیل مراد‘ کا بیان کرنا، کیونکہ لفظ مراد کو کشف (کھولنا) کرتا ہے اور کاشف (کھولنے والا) ہی دلیل ہواکرتا ہے۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے اس ارشادسے ہے ﴿ إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ﴾ ۸۴؎ اس کی تفسیر یہ ہے کہ مرصاد ’رصد‘ سے ماخوذ ہے۔ کہا جاتا ہے:رصدتہ یعنی میں نے اس کی نگرانی کی اور تاک رکھی اور مرصادرصد‘ سے مفعال کے وزن پر ہے اور اس آیت کریمہ کی تاویل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس قول کے ساتھ اپنے حکم کی بجا آوری میں سستی کرنے اور اس کے لئے تیار و مستعد رہنے میں غفلت برتنے کے برے انجام سے خوف دلایا ہے اور قطعی دلیلیں اس سے لفظ لغوی کے خلاف معنی مراد ہونے کا بیان کرنے کی مقتضی ہیں ۔‘‘۸۵؎ علامہ ثعلبی رحمہ اللہ (م ۴۲۷ ھ) نے یہاں پر تاویل کا معنی وہی بیان کیا ہے جو کہ متقدمین کے ہاں تفسیر کا معنی ہے یعنی کلام الٰہی کی مراد کا تعین کرنا اور جب تک قرآن کی مراد کا تعین نہ ہو تب تک اس سے حقیقی راہنمائی کا حصول ممکن نہیں ۔ ٭ علامہ حسین ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مذکورہ صدر اقوال میں سے جو قول اقرب إلی الصواب ہے وہ یہ ہے کہ تفسیر کا تعلق روایت کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ تاویل کا درایت کے ساتھ، کیونکہ تفسیر کشف و اظہار کا نام ہے اور مراد ربانی کا اظہار جزم وثوق کے ساتھ اسی وقت ممکن ہے جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے منقول ہو جو نزول وحی کے چشم دید گواہ اور اس سے متعلقہ واقعات و حوادث سے بخوبی آگاہ و آشنا تھے۔ ان کے لئے یہ شرف کیا کم ہے کہ انہوں نے صحبت رسول سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مشکلات قرآن کے فہم و ادراک میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا۔‘‘۸۶؎ عدل و قضاء میں درایت جب ایک قاضی کے پاس کسی واقعہ یا حادثہ کے رونما ہونے کی خبر قضا کے لیے پہنچتی ہے تو وہ اس خبر کی تحقیق میں مختلف دلائل وشواہد پر انحصار کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قاضی کو حتمی فیصلہ کرنے میں جو چیز ممدو معاون ثابت ہوتی ہے وہ مختلف ذرائع سے وصول ہونے والے قرائن، علامات اور اشارات ہوتے ہیں ، جن کی بنیاد پر ایک قاضی اپنے فہم وفراست اور ذوق وتجربہ کو بروئے کار لاکر کوئی اٹل فیصلہ