کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 76
٭ امام زرکشی رحمہ اللہ (م ۷۹۴ ھ) فرماتے ہیں : ’’تفسیر وہ علم ہے جس کی مدد سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کی مراد سمجھی جاتی ہے (اور ا س کے احکام و مسائل اور اسرار و حکم سے بحث کی جاتی ہے)‘‘۷۸؎ ٭ منہج الفرقان میں ہے: ’’تفسیر ایک ایسا علم ہے جس میں بشری استطاعت کی حد تک اس امر سے بحث کی جاتی ہے کہ الفاظ قرآنی سے اللہ کی مراد کیا ہے؟‘‘۷۹؎ ٭ امام ماتریدی رحمہ اللہ (م ۳۳۳ ھ)فرماتے ہیں : ’’تفسیر اس یقین کا نام ہے کہ لفظ سے یہی امرمراد ہے اور خداوند کریم نے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔‘‘۸۰؎ مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کی تفسیر یا کلام الٰہی کی مراد جسے درایت تفسیری کہا جاتا ہے اس میں قطعیت کا پایا جانا لازمی ہے اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب مراد الٰہی کے تعین میں منقولات پر اعتماد کیا جائے۔ مفسرین قرآن کی مراد کے لئے ایک دوسرا لفظ تاویل بھی استعمال کرتے ہیں:علمائے سلف کے ہاں تاویل سے دو معنی مراد لئے جاتے ہیں : اوّل: کلام کے معنی و مفہوم کو واضح کرنا۔ اس صورت میں تاویل و تفسیر مترادف ہیں اور ان میں کوئی معنوی فرق نہیں ۔ مشہور تابعی مجاہد رحمہ اللہ جب کہتے ہیں کہ ’’علماء قرآن کی تاویل جانتے ہیں ‘‘ تو ان کی مراد تاویل سے تفسیر ہی ہے۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (م ۳۱۰ ھ) اپنی تفسیر میں اکثر یوں کہتے ہیں:’’القول فی تاویل قولہ تعالیٰ کذا و کذا‘‘ یہاں وہ تاویل سے تفسیر ہی مراد لیتے ہیں ۔ دوم: علمائے سلف کی رائے میں کسی کلام سے جو مفہوم و مراد مقصود ہے وہی تاویل ہے۔ چنانچہ اگر کلام کسی طلب یا خبر پر مشتمل ہے تو جو فعل مطلوب ہے یا جو خبر دی جارہی ہے وہی اس کی تاویل ہے۔ متقدمین کے ہاں تاویل و تفسیر کے لفظ کو مترادف استعمال کیا گیا ہے۔ ا س حوالے سے تاویل میں بھی تفسیر کی طرح قطیت پائی جائے گی۔ کیونکہ کلام کی مراد جاننے میں تفسیر و تاویل برابر کا درجہ رکھتے ہیں ۔ البتہ متاخرین میں سے بعض نے تفسیر سے مراد وہ تفسیری روایات لی ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے منقول ہیں اور تاویل سے مراد، کلام الٰہی سے ’ثانوی معانی‘ کا استنباط ہے جسے درایت کہتے ہیں ۔ ٭ اس لئے سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ)نے الاتقان میں علماء کی رائے نقل کی ہے۔ ’’تفسیر کا تعلق روایت کے ساتھ ہے جبکہ تاویل کا تعلق درایت کے ساتھ ہے۔‘‘۸۱؎ اس کا مطلب ہے کہ جو بات کتاب اللہ میں مبین اور سنت صحیحہ میں معین واقع ہوئی ہے اس کو تفسیر کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ اس لئے کہ اس کے معنی ظاہر اور واضح ہوچکے ہیں اور کسی شخص کو اجتہاد یا غیر اجتہاد کے ذریعہ سے ان معانی کے ساتھ تعرض کرنے کا یارا نہیں رہ گیا بلکہ ان الفاظ کو خاص انہی معانی پر محمول کیا جائے جو ان کے بارہ میں وارد ہوئے ہیں اور ان معانی کی حد سے تجاوز نہ ہوگا اور تاویل وہ ہے جس کو معانی خطاب کے باعمل علماء نے اور آلات علوم کے ماہر ذی علم اصحاب نے استنباط کیا ہو۔۸۲؎ تفسیر کا انحصار محض پیروی اور سماع پر ہے اور استنباط ایسی چیز ہے جو کہ تاویل سے تعلق رکھتی ہے اسی لئے تفسیر میں منقولات پر اعتماد