کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 75
’’سیرت کی روایتیں بہ اعتبار پایہ صحت احادیث کی روایتوں سے فروتر ہیں بصورت اختلاف احادیث کی روایات کو ہمیشہ ترجیح دی جائیگی۔‘‘ ٭ علامہ شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) مزید فرماتے ہیں : ’’اسی بناء پر مجموعی حیثیت سے سیرت کا ذخیرہ کتب حدیث کا ہم پلہ نہیں ۔ البتہ ان میں سے تحقیق و تنقید کے معیار پر جو اتر جائے وہ حجت اور استناد کے قابل ہے۔‘‘۷۴؎ سیرت کی کتابوں کی کم پائیگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحقیق اور تنقید کی ضرورت احادیث احکام کے ساتھ مخصوص کردی گئی ہے یعنی وہ روایتیں تنقید کی زیادہ محتاج ہیں جن سے شرعی احکام ثابت ہوتے ہیں ۔ باقی جو روایتیں سیرت اور فضائل وغیرہ سے متعلق ہیں ان میں احتیاط کی چنداں ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ فائدہ: علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) کی بیان کردہ اس تاریخی درایت کی تعریف سے یہ بات آپ سے آپ ثابت ہوجاتی ہے کہ ہمارے ہاں جس درایت کو تحقیق حدیث میں عقلی مدار باور کروایا جارہا ہے اس کا تعلق سراسر تاریخی واقعات سے ہے، نہ کہ حدیثی روایات سے۔ جن لوگوں نے تاریخ کے اس درایتی معیار کو حدیث رسول کا درایتی معیار قرار دیا ہے وہ علمی اعتبار سے سخت قسم کے اختلاط اور مغالطہ کا شکار ہیں ۔ واضح رہے کہ مغالطہ یا اختلاط علم کی بیماری کا نام ہے جس کا علاج مختلف علوم میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کے نکھار میں ہے۔ واضح رہے کہ سند سے قطع نظر نقد ِمتن برائے متن صرف ان متون کی مجبوری ہے جن میں اسماء الرجال اور اسانید کا اہتمام نہ کیا گیا ہو۔ ورنہ نقد خبر کا اصل معیار یہی ہے کہ خبر لانے والے کی تحقیق کی جائے، جس سے ازخود خبر کی صداقت وکذب معلوم ہوجائے گا اور تاریخی مرویات کی چونکہ سند نہیں ہوتی اسی لیے تحقیق واقعہ کا اسلوب یہاں اسنادی کے بجائے محض عقلی ہے۔ درایت تفسیری تفسیر میں درایت کسی نص کی ظاہری مراد کا علم، واقفیت یا معرفت کو کہا جاتاہے۔ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ (م ۱۳۸۴ ھ) لکھتے ہیں : ’’درایت تفسیری کلام کے ظاہری مطلب کو کہتے ہیں جس کو اہل لسان اپنے محاورہ میں بے تکلف سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ ہم اپنی بول چال میں ایک دوسرے کے مافی الضمیر پر اس کے کلام سے بے تکلف آگاہ ہوجاتے ہیں اور اس کا مطلب سمجھنے سے کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ اگر بالفرض کسی موقع پر اشتراک لفظی یا کسی اور عارضہ کی وجہ سے لفظوں سے مطلب نہ سمجھا جائے تو قرائن وغیرہ متکلم کی مراد کو ظاہر کردیتے ہیں ۔‘‘۷۵؎ حافظ صاحب رحمہ اللہ کے اس قول کی تائید تفسیر کے لغوی و اصطلاحی مفہوم سے بھی ہوتی ہے۔ ٭ امام راغب رحمہ اللہ (م ۵۰۲ ھ) اپنی تفسیر کے مقدمہ میں لکھتے ہیں : ’’فسر اور سفر دو مختلف الفاظ ہیں لیکن جس طرح یہ لفظوں میں ایک دوسرے کے قریب ہیں اسی طرح معنی میں بھی قریب قریب ہیں یعنی ’’ظاہر کرنا‘‘ لیکن فسر معقول معنی کوظاہر کرنے کے لئے آتا ہے۔‘‘۷۶؎ ٭ لسان العرب میں ہے: ’’فسر کے معنی ہیں اظہار و بیان۔ اس کا فعل باب ضرب و نصر دونوں سے آتا ہے اور تفسیر کا مفہوم بھی یہی ہے۔‘‘۷۷؎