کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 74
درایت تاریخی کائنات میں انسانی حیات کو لاحق ہونے والے حوادث ووقائع کا محض شہرت کی بنا پر تسلسل وتواتر کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہونا تاریخ کہلاتا ہے۔ تاریخ دراصل ان آثار ونقوش کی ایک زبانی سند اور دستاویز کا نام ہے جس کو بعد میں آنے والے بعض افراد نے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کیلئے تدوین کی صورت میں ایک جگہ جمع کردیا اور اس بات کا قطعا خیال نہ کیاکہ ان واقعات کی روایتی اور اسنادی حیثیت کیا ہے؟ مزید برآں واقعہ کا منسوب الیہ تک تعلق کس حد تک درست اور کس حد تک غلط ہے؟ کیا یہ روئیداد اس زمانہ کے خصائص کے ساتھ میل بھی کھاتی ہے یا نہیں ؟ طبیعت انسانی پر یہ روایات کس حد تک گراں گذرتی ہیں اور یہ کہ عقلی قرائن ودلائل کے ساتھ ان کو کیا نسبت ہے؟ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ انسانی کے اکثر وبیشتر واقعات ہوائی اور افواہ کے قبیل سے ہوتے ہیں ، جنہیں سامعین کی سماعت قوت گویائی دیتی ہے اور وہ اپنے نطق وزبان سے ان واقعات کو بیان کرکے دوسروں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں ۔ لیکن اسلامی تاریخ کا اسلوب اس سے قدرے مختلف ہے، کیونکہ اس تاریخ کے ابتدائی ایام حیات رسول اور حیات صحابہ رحمہم اللہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کی چانچ کا ذریعہ حدیث رسو ل کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے، کیونکہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ اسلامی قلم رو میں کوئی انتہائی واقعہ رو نما ہوا ہو، مؤرخین اسے بیان کردیں لیکن محدثین رحمہم اللہ نے اس کی طرف چنداں التفات نہ کیا ہو۔ ہاں بعد کے زمانوں میں مدون کی جانے والی تاریخی روایات کے پرکھنے کا معیار عقلی قرائن، فطری طبائع اورعصری خصائص ہوسکتے ہیں جن کی بنیاد پر تاریخی روایات وواقعات کو قبول یا رد کیا جاسکتا ہے۔ اسی کا نام درایت تاریخی ہے۔ ٭ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ’’ ’درایت‘ سے یہ مطلب ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان کیا جائے تو اس پر غور کیا جائے کہ وہ طبیعت انسانی کے اقتضاء زمانہ کی خصوصیتیں ، منسوب الیہ کے حالات اور دیگر قرائن عقلی کے ساتھ کیا نسبت رکھتا ہے۔ اگر اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو اس کی صحت بھی مشتبہ ہوگی۔.... اس قسم کے قواعد حدیث کی تحقیق و تنقید میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور انہی کا نام اصول درایت ہے۔‘‘۷۲؎ درایت کا یہ معیار کسی تاریخی واقعہ کو پرکھنے کے لئے تو مفید ہے کیونکہ تاریخ افواہوں اور مشہور واقعات ہی سے جنم لیتی ہے۔ اور اسناد کی کلی تحقیق موجود نہ ہونے کی صورت میں تاریخ کو پرکھنے کے یہی ذرائع ہمارے پاس ہیں ، لیکن حدیث کی صحت و ضعف کے لئے یہ اصول کافی نہیں ۔ اگرچہ مسلمانوں نے اسلامی تاریخ (سیرت) کو بھی انہی اصولوں پر پرکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن ا س کے باوجود سیرت کی معتبر ترین کتاب ’سیرت ابن اسحق‘ کا مؤلف جرح و تعدیل کے اعتبار سے مدلس ہے۔ توباقی سیرت کی کتابوں کے درجہ کا خود اندازہ کرلیجیے۔ اس کے بالمقام سنت رسول اور احکامات شریعت کو محفوظ کرنا بھی تاریخ ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس میں جس قسم کی احتیاط کی گئی ہے سیرت کی کتب میں وہ معیار قطعی مفقود ہے کیونکہ تاریخ رطب ویابس کا مجموعہ اور احادیث تحقیق کا اعلی ترین معیار ! ٭ اس حوالے سے مولانا مودودی رحمہ اللہ (م ۱۴۰۰ ھ) لکھتے ہیں : ’’جو سنتیں احکام کے متعلق تھیں ان کے بارے میں پوری چھان بین کی گئی۔ سخت تنقید کی چھانیوں سے ان کو چھانا گیا۔ روایت کے اصولوں پر بھی ان کو پرکھا گیا اور درایت کے اصولوں پر بھی اور وہ سارا مواد جمع کردیا، جس کی بناء پر کوئی روایت مانی گئی یا رد کردی گئی تاکہ بعد میں بھی ہر شخص اس کے رد قبول کے متعلق تحقیقی رائے قائم کرسکے۔‘‘۷۳؎ ٭ اس حوالے سے علامہ شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) نے بھی ’’سیرۃ النبی‘‘ کے مقدمہ میں فرمایا ہے: