کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 73
٭ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ (م ۱۳۸۴ ھ) فرماتے ہیں :
’’ عبارت کے سرسری مطلب کے علاوہ جتنے معانی ہیں سب درایت اجتہادی میں داخل ہیں ۔‘‘
1۔ جیسے بھنگ چانڈ وغیرہ کو نشہ کی وجہ سے شراب پر قیاس کرکے حرام قرا ردینا بھی درایت اجتہادی ہے۔
2۔ اسی طرح آیت کریمہ ﴿ وَامْرَأَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ ﴾ ۶۴؎ سے کفار کے صحت نکاح کا مسئلہ نکالنا یعنی انکے نکاح آپس میں صحیح ہیں ۔
3۔ اسی طرح آیت کریمہ ﴿ وَحَمْلُہٗ وَفِصَالُہٗ ثَلٰثونَ شَھْرًا ﴾ ۶۵؎ اور آیت کریمہ ﴿ وَفِصَالُہٗ فِی عَامَیْنِ ﴾ ۶۶؎ دونوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکالنا کہ اَقل مدت حمل چھ ماہ ہے۔
4۔ اسی طرح آیت کریمہ ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ ۶۷؎ کے باعث اور شان نزول کو دیکھ کر اس بات پر استدلال کرنا کہ یہ آیت ایک مجلس میں دو یا تین طلاق کے حکم کو شامل نہیں کیونکہ اس آیت کے اترنے کا باعث اضرار بالنساء ہے اور ایک مجلس میں خواہ ہزار طلاق دی جائے، اس کو اضرار و عدم اضرار سے کچھ تعلق نہیں ۔
5۔ اسی طرح مقتضی حال کا لحاظ کرکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا ابن عباس رضی اللہ عنہ کاسورۃ ﴿ إِذَا جَائَ نَصْرُاللّٰہ ﴾ ۶۸؎ سے حضرت کی قرب وفات سمجھنا۔
6۔ اسی طرح حدیث ((إذا سافرتما فأذنا ولیؤمکما أکبرکما)) ۶۹؎ (یعنی جب تم سفر میں ہو تو جو چاہے اذان اور تکبیر کہے مگر امامت وہ کرائے جو تم میں سے بڑا ہو) سے یہ مسئلہ استخراج کرنا کہ جو شخص اذان کہے اگر وہی شخص جماعت کرائے تو کوئی حرج نہیں اور بعض علماء نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’قرآن کی ہر آیت کے لئے ساٹھ ہزار فہم ہیں ‘‘ تو ان کا یہ قول بھی صاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن پاک میں مسائل استنباط اس قدر ہیں کہ وہ ختم نہیں ہوتے۔ اس لئے درایت اجتہادی کی نسبت یہ کہنا بجا ہے۔ لا ینقضی عجائبہ۷۰؎ ‘‘
بعض فقہاء رحمہم اللہ نے درایت اجتہادی کو درایت فقہی کا نام دیا ہے۔ واضح رہے کہ فقہ احکام شریعہ کی اس واقفیت کا نام ہے جو اجتہاد کے طریق سے حاصل ہوتی ہے۔
٭ علامہ آمدی رحمہ اللہ (م ۶۳۱ ھ) لکھتے ہیں :
العلم بالأحکام الشرعیۃ العلمیۃ المکتسبۃ من أدلتھا التفصیلیۃ۷۱؎
چنانچہ واضح ہوا کہ فقہ میں درایت سے مراد اجتہاد و استنباط ہے، جس کے ذریعہ شرعی احکام معلوم کئے جاتے ہیں ۔
فائدہ:یاد رہے کہ درایت کی اصطلاح کا تعلق جب محدثین رحمہم اللہ سے ہوگا تو اس کو درایت حدیثی کہیں گے اور جب اس کا تعلق فقہاء رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ کے ساتھ ہوگا تو اس کو درایت اجتہادی کہیں گے۔ لیکن یہاں ایک باریک نکتہ ذہن نشین کرلینا انتہائی ضروری ہے کہ جب محدثین رحمہم اللہ سند ومتن پر درایتی اعتبار سے بحث کرتے ہیں تو اس سے ان کا صرف مقصدیہ ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث کی سند کارسول اللہ تک پہنچنا واقعاتی طور پر ثابت ہے یا کہ بعض رواۃ نے جھوٹ کو اس برگزیدہ ہستی کی طرف منسوب کردیا ہے۔ محدثین رحمہم اللہ کا کام تحقیق روایت ہے، جب کہ مجتہدین کا کام استنباط روایت ہے۔ گویا مجتہدین کا کام اثبات حدیث رسول کے بعد شروع ہوتا ہے جس سے ان کا مقصد موجود مرویات سے استنباطات کرناہوتا ہے۔ اس امر کی مکمل تفصیل باب چہارم کی پہلی فصل میں آئے گی۔