کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 72
بشری استطاعت کی حد تک راویان حدیث نے اس با ت کا اہتمام کیا ہے۔ لیکن یہ ایک حد سے زیادہ ممکن نہیں ۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال، تقریرات، صفات خَلقیہ وخُلقیہ کی روایت تو معنی کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتی۔ اسلئے علامہ شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) کا یہ کہنا کہ ’’جن حدیثوں کے رواۃ فقیہہ نہ ہوں ان میں اصول درایت کی ضرورت زیادہ ہے۔‘‘ جمہور احناف کے نزدیک ایک کمزور رائے ہے۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ خود ساختہ درایت کے جن اصولوں کی بناء پر لوگوں نے بہت سی درست روایات کا انکار کیا ہے اور ان کے رد کے لئے ذوق اور فہم ذاتی کو معیار بنایا ہے، اس سے منکرین حدیث کے لئے وہ چور راستے کھل جاتے ہیں جن کے ذریعے وہ حدیث میں تشکیک پیدا کرکے اپنی من مانی تاویلات کرسکتے ہیں ۔ درایت اجتہادی درایت اجتہادی استنباط واستخراج احکام کا دوسرا نام ہے، جس کا تعلق سراسر ایک مجتہد کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب مختلف دلائل کو ملاکر کسی ایک حکم کا استنباط کیا جائے یا اقتضائے حال کے پیش نظر کسی بات کا استخراج کیا جائے اور مجتہد انتہائی غور وخوض کے بعد کسی ایک نتیجہ پر پہنچ کر مطمئن ہورہا ہو یعنی ایسا نتیجہ جو ظاہری الفاظ یا ظاہری کلام کے باطن میں پوشیدہ ہو تو اس کو درایت اجتہادی کہتے ہیں ۔ ٭ ابن منظور رحمہ اللہ (م ۷۱۱ ھ) فرماتے ہیں ۔ الاجتہاد والتجاہد، بذل الوسع والمجہود والمراد بہ ردّ القضیۃ التی تعرض للحاکم من طریق القیاس إلی الکتاب والسنۃ ولم یرد الرأی الذی ر اء ہ من قبل نفسہ من غیر حمل علی الکتاب أو السنۃ۔ ’’اجتہاد وجہاد کا معنی مقدور بھر ہمت وطاقت کو صرف کرنا ہے۔ کسی پیش آمدہ مسئلہ میں حاکم کے اجتہاد کرنے سے مراد یہ ہوتا ہے کہ وہ قیاس کے طریق سے کتاب وسنت کی طرف رجوع کرے اور اس رائے کو اہمیت نہ دے جو اس نے کتاب وسنت کا جائزہ لئے بغیر خود قائم کی ہو۔‘‘ ٭ طاش کبریٰ زادہ رحمہ اللہ (م ۹۶۸ ھ) درایت اجتہادی کے متعلق لکھتے ہیں : ہو علم باحث عن المعنی المفہوم من ألفاظ الحدیث ومن المراد منہا مبینا علی قواعد العربیۃ وضوابط الشریعۃ ومطابقا لأحوال النبی ۶۱؎ ’’ یہ ایسا علم جس میں معنی، مفہوم میں غور خوض کیا جاتا ہے جو الفاظ حدیث اور مراد حدیث سے سمجھ آرہا ہو، جس کی بنیاد قواعد عربیہ، ضوابط شرعیہ اور مطابقت احوال رسول پر ہوتی ہے۔‘‘ اگر ہم چاہیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ درایت فقہی ہی کا دوسرا نام استنباط، استخراج، اجتہاد ہے۔ جیساکہ عبد اللہ محدث روپڑی (م ۱۳۸۴ ھ) درایت اجتہاد ی کی تعریف یوں فرماتے ہیں : ’’درایت اجتہادی استنباط کو کہتے ہیں ، جیسے فحوائے کلام سے کسی مطلب پر مطلع ہوجانا یا دو تین باتوں کو ملا کر ان سے ایک مناسب نتیجہ نکالنا یا باعث کلام یا مقتضی حال یا وضع متکلم کو دیکھ کر اس سے کوئی بات استخراج کرنا وغیرہ وغیرہ۔‘‘۶۲؎ گذشتہ عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ فقہ میں درایت سے مراد اجتہاد و استنباط ہے، جس کے ذریعہ شرعی احکام معلوم کئے جاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے محمد علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’علم الحدیث کو علم الروایۃ اور علم الاخبار والآثار کہا جاتا ہے،جب کہ علم الفقہ اور علم اصول الفقہ کو علم الدرایۃ کہاجاتا ہے۔‘‘۶۳؎ اسی ضمن میں حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ (م ۱۳۸۴ ھ) نے بھی فقہی درایت کو درایت اجتہادی کے نام سے بیان کیا ہے۔