کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 71
’’رواۃ اور ان کی شروط کے بارے میں معاملہ کا دارومدار علماء کے اجتہاد پر ہے۔‘‘ ٭ مولانا ظفر علی عثمانی تھانوی رحمہ اللہ مرحوم فرماتے ہیں : إن تضعیف الرجال و توثیقھم أمر اجتہادی۵۵؎ ’’رجال حدیث کا رد و قبول ایک اجتہادی معاملہ ہے۔‘‘ ٭ علامہ شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) سیرۃ النعمان میں لکھتے ہیں : ’’فن حدیث کے آغاز اور طرز ترقی، روایتوں کے سلسلہ کا پیدا ہونا اور ہر دور میں اس کی حالت کا اندازہ تبھی ہوسکے گا۔ جب یہ معلوم کیا جائے کہ احادیث کی تنقید میں اجتہاد رائے کا کس قدر کام ہے۔‘‘۵۶؎ یہی وہ ساری بنیاد ہے جس کی بناء پر روایت کی صحت کے لئے احناف میں سے عیسیٰ بن ابان معتزلی وغیرہ نے فقہ راوی کی شرط کا اضافہ کیا ہے۔ اور روایت کے فن میں اجتہاد کو داخل کردیا ہے حالانکہ جمہور احناف نے اس کی بھرپور تردید کی ہے۔ کیونکہ تمام اصحاب نظر جانتے ہیں کہ جرح و تعدیل کی اصل بنیاد امور محسوسہ یعنی مشاہدات و مسموعات پر ہے۔ ان مشاہدات و مسموعات کی روشنی میں ہی جارحین و معدلین کسی راوی کے متعلق کسی عصبیت، حقد و محابات اور لومۃ لائم کے خوف کے بغیر غایت درجہ و رع و امانت کے ساتھ اپنا فیصلہ اور حکم صادر کرتے ہیں ۔‘‘۵۷؎ ٭ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ (م ۱۳۶۷ ھ) محدثین رحمہم اللہ اور مجتہدین رحمہم اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’حدیث کی تنقید (ضعف اور صحت) سے بحث کرنا محدثین رحمہم اللہ کا کام ہے۔ مجتہد کے لئے حدیث کا جاننا ضروری ہے۔ لیکن بحیثیت مجتہد اس کا کام استنباط مسائل ہے اور تنقید حدیث میں وہ محدثین رحمہم اللہ کی خدمت کی وجہ سے بے فکر ہوسکتا ہے۔‘‘۵۸؎ ٭ صاحب تلویح رحمہ اللہ فرماتے ہیں : البحث عن أحوال الرواۃ فی زماننا ھذا کالمتعذر بطول المدۃ وکثرۃ الوسائط فالأولی الاکتفاء بتعدیل الأئمۃ الموثوق بھم فی علم الحدیث کالبخاری والمسلم والبغوی الصنعانی وغیرھم من أئمۃ الحدیث۵۹؎ ’’ہمارے زمانے میں راویان حدیث کے حالات سے بحث کرنا طویل مدت کی وجہ سے گویا مشکل ہے۔ پس بہتر یہ ہے کہ ائمہ حدیث جوفن حدیث میں معتبر ہیں ۔ انہی کی تنقید اور تعدیل پر کفایت کی جائے جیسے امام بخاری رحمہ اللہ (م۲۵۶ھ)، مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ھ)اور امام بغوی رحمہ اللہ وغیرہ۔‘‘ یہ کہہ کر مجتہد کا من حیث المجتہد فن حدیث میں دخل اتنا بتلاتے ہیں : لا یخفی أن المراد معرفۃ متن الحدیث بمعانیہ لغۃ وشرعا وباقسامہ من الخاص والعام وغیرھا۶۰؎ ’’الفاظ حدیث کواس کے معانی کے ساتھ جاننا اور اس کی اقسام، خاص، عام وغیرہ کو معلوم کرنا (مجتہد کا فرض ہے)۔‘‘ گویا کہ علامہ شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ ’’درایت اور رائے مترادف سے الفاظ ہیں اور کم از کم یہ کہ عام لوگ ان دونوں میں فرق نہیں کرسکتے۔‘‘ یہ دعویٰ لغوی معنی کے لحاظ سے تو شاید ٹھیک ہو، لیکن اصطلاحی معنی کے لحاظ سے درایت کی تعریف رائے کے مترادف نہیں ہے۔ ٭ جہاں تک روایت بالمعنی میں اطمینان کے لئے فقہ راوی کی شرط کا اضافہ ہے تو یاد رہے کہ دنیا میں آج تک قرآن کے علاوہ الفاظ کی ہو بہو روایت کی کوئی مثال موجود نہیں ۔ اسی بناء پر قرآن کے لئے روایت کے بجائے تلقی وادا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ