کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 70
کو الگ الگ مفہوم میں استعمال کرکے اسے جمہور علماء یا تمام متقدمین و سلف کی اصطلاح کے برخلاف استعمال کیا اور پھر بھی اسے فرد واحد کی سوچ کا عکاس جاننے کے بجائے امت کے اجتماعی دھارے کے تعین کیلئے استعمال کرتے ہیں جوکہ درست طریقہ کار نہیں ۔ ٭ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) سیرۃ النعمان میں لکھتے ہیں : ’’جو لوگ علم حدیث کی درس و تدریس میں مشغول تھے ان میں دو فرقے قائم ہوگئے تھے۔ ایک وہ جن کا کام صرف حدیثوں اور روایتوں کا جمع کرنا تھا۔ وہ حدیث سے صرف من حیث الروایۃ بحث کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو ناسخ و منسوخ سے بھی کچھ سرو کار نہ تھا۔ دوسرا فرقہ حدیثوں کو استنباط احکام اور استخراج مسائل کے لحاظ سے دیکھتا تھا۔‘‘۵۲؎ اس عبارت میں علامہ شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) نے درایت کی اصطلاح میں اجتہاد شامل کردیاہے۔ جب کہ گذشتہ ساری بحث سے واضح ہے کہ علما نے (خواہ متقدمین ہوں یامتاخرین) فن حدیث میں درایت سے مراد صحت و ضعف کی پہچان لی ہے یعنی نقد حدیث، نہ کہ استنباط فقہی جو کہ اجتہاد کا خاصہ ہے۔ ٭ مولانا تقی امینی رحمہ اللہ کو بھی یہ مغالطہ ہوا ہے کہ درایت کی اصطلاح کے دو جز ہیں : نقد حدیث (حدیث کی صحت و ضعف کی پہچان) فہم حدیث (الفاظ حدیث سے اجتہاد و استنباط) ٭ آپ لکھتے ہیں : ’’محدثین رحمہم اللہ حدیث کی تحقیق میں سند کے علاوہ الفاظ و معانی اور مفہوم پربھی نقد کرتے تھے ،لیکن انہوں نے جمع حدیث اور خارجی نقد و تحقیق میں جس قدر شاندار کارنامے انجام دیئے۔ داخلی نقد و تحقیق میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔‘‘ ’’اسی طرح فقہاء عظام رحمہم اللہ نے داخلی نقد و تحقیق پر جس قدر شاندار کارنامہ انجام دیا ہے۔ خارجی نقد و تحقیق میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔‘‘۵۳؎ اس معاملے کا اہم پہلو یہ ہے کہ نقد حدیث اصلاً درایت کا اصطلاحی مفہوم ہے اور فقہی درایت کا تعلق نقد حدیث سے نہیں بلکہ شرعی احکام کے استنباط سے ہے، البتہ فہم حدیث سے اگر تحمل واقعہ میں فہم واقعہ کی غلطی مراد ہو، جسے اصطلاح میں ’استدراکات‘ کا نام دیا جاتا ہے تو یہ بہرحال فن حدیث یا درایت حدیث کا ہی موضوع ہے، جیساکہ اس کی تفصیل باب ششم میں آئے گی۔ ’درایت‘ کے اس لغوی اور اصطلاحی مفہوم کے خلط ملط ہونے سے محدثین کرام رحمہم اللہ اور فقہاء عظام رحمہم اللہ کے درمیان اختلاف کی ایک نئی بحث جنم لینے لگی ہے کہ مقام میں کون برتر ہے؟حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح فلسفہ اور انجینئرنگ کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہوتا اسی طرح محدثین کرام رحمہم اللہ اور فقہاء عظام رحمہم اللہ کے کام کی نوعیت بھی بالکل مختلف ہے۔ اس لئے اختلاف کی کوئی معنوی حقیقت نہیں ہے۔ محدثین رحمہم اللہ (جارحین و معدلین) کے درمیان بعض رواۃ حدیث کے بارے میں اختلاف رائے دیکھ کر بعض لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے کہ رجال کی توثیق و تضعیف بھی اجتہادی امر ہے۔ ٭ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ (م ۸۶۱ ھ) فرماتے ہیں : فدار الأمر فی الرواۃ علی اجتہاد العلماء فیہم وکذا فی الشروط.... الخ۵۴؎