کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 7
٭ اُصول الحدیث علومہ و مصطلحہ کے صفحہ ۳۳ پر متن کی تعریف یوں موجود ہے:
وفی الاصطلاح ہو الفاظ الحدیث التی تتکون بھا معانیہ
٭ ’متن‘ کے حوالے سے اہل علم میں یہ اختلاف ہے کہ آیا متن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول قولِ صحابی کا نام ہے یا محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ۔اہل علم نے پہلے قول کو زیادہ مناسب قرار دیا ہے کیونکہ حدیث میں قول وفعل اور تقریر بھی شامل ہے ۔ نیز ائمہ سلف نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے آثار وفتاویٰ کو بھی حدیث میں ہی شمار کیا ہے ۔۲۷؎
متن کو دو بنیادی انواع میں تقسیم کیا گیا ہے: 1۔ قرآن کریم 2۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
حدیث کو مزید یوں تقسیم کیا گیا ہے : 1۔ حدیث ِقدسی 2۔حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم
ان اقسام کی تعریفات آئندہ سطور میں پیش خدمت ہیں :
قرآن کریم : اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو جبرئیل علیہ السلام نے سنا اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا ، وہ لفظی ومعنوی اعتبار سے متواتر ہے، قطعی ویقینی علم کا فائدہ دیتا ہے اور ایسے مصاحف میں مکتوب ہے جو تحریف وتغییر سے محفوظ ہیں ۔۲۸؎
حدیث قدسی : سے مراد وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم اللہ تعالیٰ سے روایت بیان کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کا براہ راست کلام ہوتا ہے۔ اس میں لفظ یوں ہوتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ایسی چیز کے متعلق فرمایا جسے وہ اپنے رب ذوالجلال سے روایت کرتے ہیں ‘‘ یا یہ لفظ ہوتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ....۔‘‘۲۹؎
حدیث ِنبوی: ہر وہ قول ‘ فعل اور تقریر یا صفت ہے جو نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف منسوب ہو ۔۳۰؎
واضح رہے کہ علی الاطلاق حدیث وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہو لیکن علمائے حدیث صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ کے اقوال و افعال کو بھی ’حدیث‘ میں شمار کرتے ہیں اور اس کا نام موقوف اور مقطوع رکھتے ہیں ۔ یوں متن حدیث قائل کے اعتبار سے تین انواع میں تقسیم ہو جاتا ہے:
1۔ مرفوع : جس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو ۔
2۔ موقوف: جس کی نسبت صحابی کی طرف ہو ۔
3۔ مقطوع : جس کی نسبت تابعی کی طرف ہو ۔
صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ کی طرف منسوب متن کو حدیث وسنت اس لیے شمار کیاگیا ہے کیونکہ ان حضرات کے تزکیہ وعدالت کی شہادت خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور انہیں امت کے بہترین افراد قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُھَاجِرِینَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوھُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ وَأَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَھَا الأَنْھَارُ خَالِدِینَ فِیھَا أَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ﴾ ۳۱؎
’’ اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیروکار ہیں ، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی کامیابی ہے ۔‘‘
٭ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: