کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 69
’’ اگر مجھے گواہ (بینۃ) کے بغیر سزا کا اختیار ہوتا تو میں اس عورت کو رجم کرتا۔‘‘ اس طرح حدیث کی جانچ پرکھ میں راویوں کی حیثیت بھی گواہان کی ہے۔ اگر ایک ماہر کی نظر متن میں جھول محسوس کرے تو اسے تحقیق کے لئے سند کا دوبارہ جائزہ لینے کا اختیار تو ہے لیکن صرف اپنی فقہ و فہم کی بناء پر محدثین رحمہم اللہ کی صدیوں کی محنت کو ٹھکانے لگانے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ ٭ مولانا عبدالرؤف دانا پوری رحمہ اللہ درایت اور عقل کے زیرعنوان لکھتے ہیں : ’’جس طرح یہ ضروری ہے کہ موضوع اور جھوٹی حدیثیں رد کردی جائیں ۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح تعلیم ترک نہ ہونے پائے۔ اس لئے تحقیق کی اصل چیز اسانید ہیں ۔کیونکہ یہ اسانید ثقہ اور معتبر لوگوں کی شہادتیں ہیں ۔ جو روایتیں مستند اور صحیح الاسناد ہوں ان کو قبول کرنا واجب ہے۔ جن روایتوں کا موضوع ہونا ثابت ہوجائے۔ ان کو رد کرنا واجب ہے۔باقی وہ روایتیں جس کے اسناد نہ معلوم ہوں ان کے بارے میں ان علماء کے بیان پر اعتماد ضروری ہے۔ جن کو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت نبویہ پر عبور اور ملکہ راسخہ حاصل ہے۔ کیونکہ وہ الفاظ کی رکاکت و سخافت۔ طرز کلام اور دوسرے قرائن سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہوسکتا ہے یا نہیں .... ایسے مشاق علماء کا فرمانا اگرچہ بڑی حد تک قابل اعتبار ہوگا۔ مگر اسی وقت تک، جب تک اسناد کاعلم نہ ہوجائے اسناد معلوم ہوجانے کے بعد ان کے قیاسات بھی قابل قبول نہیں رہتے۔‘‘۴۹؎ ٭ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں : ’’محدثین رحمہم اللہ تو احادیث کا محض عقل و قیاس کی بناء پر کیا انکار کریں گے۔ بہت سے محدثین رحمہم اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) کو صاحب ِقیاس و اہل الرائے کہتے ہیں مگر وہ (ابوحنیفہ رحمہ اللہ) بھی یہی کہتے ہیں ، کہ سند صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مل جائے تو قیاس و رائے کو تر ک کردو۔ فقہ حنفی کی کتابیں اٹھا کر دیکھو صدہا مسائل میں وہ لوگ لکھتے ہیں ۔ اگرچہ قیاس کا اقتضاء یہ تھا مگر فلاں حدیث کی وجہ سے قیاس ترک کیا۔‘‘۵۰؎ ٭ اس کی وضاحت میں مولانا محمد عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۸ ھ) لکھتے ہیں : ’’محض شخصی عقل اور تجربہ قرائن کی بنیاد نہیں ہونا چاہئے بلکہ اساس پھر بھی درایت اور واقعات پر ہونی چاہئے۔ عقلی استحالات ایک مستند قصہ کی تغلیط کے لئے کافی نہیں بلکہ اگر صحیح روایات کی تغلیط محض عقلی احتمالات سے کی جائے تو اس کا مطلب روایت اور رواۃ دونوں کی تکذیب ہوگا اور اگر ان قرائن کی بنیاد کوئی دوسری حدیث ہو تو اعتماد روایت پر اور قرائن ترجیح کا موجب ہوں گے۔‘‘۵۱؎ اس تمام بحث سے واضح ہوتا ہے کہ درایت دراصل علم حدیث کی اصطلاح ہے اور اس کا اصطلاحی استعمال بھی صرف محدثین نے کیا ہے جبکہ فقہ میں اس کا استعمال لغوی طور پر یا غیر ا صطلاحی طور پر ہوا ہے۔ اس لئے اس اصطلاح کے تعین میں واضح نہ ہونے کی بناء پر بعض نے ان علوم کو خلط ملط کردیا ہے۔ نوٹ: اصطلاح اسے کہتے ہیں جس پرایک فن کے ماہرین متفق ہوجائیں ۔ اس کیلئے لازم ہے کہ اصطلاح کو وہیں استعمال کیا جائے جہاں پر وہ معروف ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہر زبان میں کچھ محاورے معروف ہوجاتے ہیں ۔ وہ محاورے اپنے لغوی معنی جو بھی رکھتے ہوں ۔ ان سے قطع نظر زبان میں انکا استعمال اصطلاحاً ہی ہوتا ہے اور کسی فرد واحد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس اصطلاح کو بدل دے یا یہ کہے کہ میری مراد اس اصطلاح سے یہ ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر یہ اصطلاح معروف نہ کہلائی جائیگی بلکہ فرد واحد کی اصطلاح ہوگی اور اسے اس فرد واحد ہی کی سوچ کا عکاس سمجھا جائے گا نہ کہ تمام اہل زبان بھی اسی معنی کو استعمال کریں ۔ جیسا کہ اصلاحی مکتب فکر نے حدیث و سنت