کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 68
’’جب کوئی واقعہ بیان کیا جائے تو اس پر غور کیا جائے کہ وہ طبیعت انسانی کے اقتضاء، زمانہ کی خصوصیات منسوب الیہ کے حالات اور دیگر قرائن عقلی کے ساتھ کیا نسبت رکھتا ہے۔‘‘۴۴؎ ان علامات کی بنیاد پر سند کی جانچ نئے سرے سے کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ روایت حدیث اور درایت حدیث میں فرق اس سلسلہ میں علامہ تقی امینی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’حدیث کے درایتی معیار ‘ میں بحث ِدرایت کی ابتدا ہی میں سب سے پہلی بات جسے واضح فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ روایت سے مراد حدیث کی نقل وخبر ہے، جبکہ درایت سے مراد اس کی نسبت رسول کی صحت کو جانچنا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف دین وشریعت سے متعلق جو کچھ منسوب ہوا اس کو ’حدیث‘ کہتے ہیں ۔ اس نسبت کی صحت کو جانچنے کے لیے اہل علم نے ایک معیار مقرر کیا ہے، جس کا نام ’درایتی معیار‘ ہے۔‘‘۴۵؎ ٭ علم روایۃ الحدیث اور علم درایت الحدیث میں فرق اور باہمی تعلق کے حوالے سے نور الدین عتر حفظہ اللہ فرماتے ہیں: علم الحدیث درایۃ یؤصل إلی معرفۃ المقبول من المردود بشکل عام أی بوضع قواعد عامۃ فأما علم روایۃ الحدیث فإنہ یبحث فی ہذا الحدیث المعین الذی تریدہ فیبین تطبیق تلک القواعد أنہ مقبول أو مردود، ویضبط روایتہ وشرحہ، فہو إذا یبحث بحثا جزئیا تطبیقیا، فالفرق بینہم کالفرق بین النحو وبین الإعراب وکالفرق بین أصول الفقہ وبین الفقہ۴۶؎ ٭ ڈاکٹر صبحی صالح حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ روایت حدیث کا علم ان تمام احادیث کی نقل وروایت پر حاوی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں ، خواہ وہ احادیث قولی ہوں ، فعلی ہوں یا تقریری ہوں یا نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی کسی صفت پر مبنی ہوں ۔ قول مختار کے مطابق اس میں اقوال صحابہ بھی شامل ہیں ۔ جبکہ درایت حدیث کی تعریف میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) رقم طراز ہیں کہ ایسے مباحث ومسائل کا مجموعہ ، جس سے راوی اور مروی( حدیث) کا حال قبولیت یا عدم قبولیت کے لحاظ سے معلوم کیا جائے، درایت الحدیث کہلاتا ہے‘‘۔۴۷؎ مختصر خلاصہ یہ کہ محدثین رحمہم اللہ نے درایت سے مراد حدیث کی جانچ پرکھ (نقد حدیث) لی ہے اور سندو متن ہر دو سے متعلقہ مباحث نقد کے نکتہ نگاہ سے واضح کئے ہیں اس حوالے سے جو اقوال نقل کئے جاتے ہیں کہ ’’ایک ماہر جوہری ہیرے کی جودت سے غلط اور صحیح کا امتیاز کرلیتا ہے ‘‘یا ’’ایک ماہر فن سند کے بغیر بھی موضوع اور صحیح حدیث کی پہچان رکھتا ہے۔ تو اس کی حیثیت صرف یہیں تک محدود ہے کہ ان علامات کی بناء پر سند کی طرف دوبارہ رجوع کیا جائے۔ جس طرح ایک ماہر جج مقدمہ میں اپنے فہم کے مطابق کوئی جھول محسوس کرتے ہوئے گواہوں کے بیانات کا نئے سرے سے جائزہ لے یا مقدمہ کی تفصیل کو دوبارہ غور سے دیکھے (جسے عدلیہ کی اصطلاح میں اپیل یا نظرثانی کہا جاتا ہے) تاکہ حقیقت تک پہنچا جاسکے۔ اسی طرح متن میں کوئی جھول محسوس کرتے ہوئے دوبارہ سند کی طرف غور کیا جائے اور اگر گواہوں پر انسانی استطاعت کی حد تک جرح کرنے کے باوجود معاملہ جوں کا توں رہے اور جج گواہان کو نظر انداز کرکے صرف اپنے فہم کی بنیاد پر فیصلہ حقائق کے خلاف سنا دے تو یہ انصاف نہ ہوگا۔ اس بات سے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ جیسا کہ لعان والے ایک واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((لو رجمت أحدا بغیر بینۃ رجمت ھذہ)) ۴۸؎