کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 67
میں بحث کی جاتی ہے اور راوی اور مروی کی معرفت پر من حیث القبول والرد رجوع کیا جاتاہے۔‘‘۳۹؎ ٭ نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ (م ۱۳۰۷ ھ) نے شمس الدین الافغانی رحمہ اللہ سے درایت حدیث کی تعریف ان الفاظ میں نقل کی ہے: درایۃ الحدیث علم تتعرف منہ أنواع الروایۃ وأحکامھا وشروط الروایۃ وأصناف المرویات واستخراج معانیھا ویحتاج إلی مایحتاج إلیہ علم التفسیر من اللغۃ والنحو والتصریف والمعانی والبیان والبدیع والأصول ویحتاج إلی تاریخ النقلۃ ۴۰؎ ’’علم درایت حدیث سے، روایت کی اقسام، شروط ،احکام اور مرویات کی اقسام اور ان کے معانی کا استخراج ہوتا ہے اور اس میں لغت، نحو، صرف، معانی، بیان اور بدیع کی اسی قدر ضرورت ہے جس قدر علم تفسیر میں اور ناقلین حدیث کے متعلق تاریخی معلومات یعنی موالید اور وفیات کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔‘‘ ٭ امام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ) ابن الاکفانی رحمہ اللہ (م ۷۴۹ ھ) کی حوالے سے رقم طراز ہیں : ’’علم الحدیث درایۃ سے ایسا علم مراد ہے کہ جس کے ذریعے روایت کی حقیقت، اسکی انواع، اس کی شروط، اس کے احکام، اس کے رواۃ کا حال اور رواۃ سے متعلقہ شرائط، مروی کی مختلف اصناف اور اس سے متعلق اشیاء کی معرفت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘۴۱؎ خلاصہ کلام یہ ہے کہ محدثین رحمہم اللہ کی جملہ مساعی کا تعلق سندو متن دونوں سے ہے۔ سند کی بحث میں راویوں کے حالات سے اس لئے واقفیت حاصل کی جاتی ہے تاکہ ان کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے کے بارے میں معلوم کرکے متن پر قبول و رّد کا حکم لگایا جائے۔ اس لئے علامہ نور الدین عتر حفظہ اللہ نے درایت حدیث کا موضوع یہ بیان کیا ہے: وموضوع ھذا العلم الذی یبحثہ ھو السند والمتن من حیث التوصل إلی معرفۃ المقبول من المردود۴۲؎ ’’درایت کا موضوع روایت کے رد و قبول کے اعتبار سے اس کی سند و متن سے بحث کرنا ہے۔‘‘ ٭ اور ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) کا موقف بھی یہی ہے: معرفۃ القواعد المعرفۃ بحال الراوی والمروی۴۳؎ ’’ درایت، راوی اور روایت کی پہچان کرانے والے ضابطوں کو کہتے ہیں ۔‘‘ گویا کہ سند اور متن دو الگ مستقل چیزیں نہیں ، بلکہ متن مطلوب اور سند کی تحقیق اس کا ذریعہ ہے۔ محدثین رحمہم اللہ نے اصول حدیث کی کتابوں میں علل الحدیث کے عنوان سے جو ابواب ذکر کئے ہیں اس میں ان مباحث کی تفصیل موجود ہے۔ یعنی متن میں موجود کسی علامت کی بنا پر سند (راویوں ) کی نئے سرے سے جانچ پرکھ کرنا۔یہ واضح رہنا چاہئے کہ صرف علامت موجود ہونے سے کسی روایت پر حکم نہیں لگایا جاسکتا،جب تک کہ علامت کی موجودگی پر سند کی دوبارہ جانچ پرکھ نہ کرلی جائے۔ محدثین کرام رحمہم اللہ سے کوئی ایک بھی ایسی حدیث آج تک نقل نہیں کی جاسکی جس میں سند سے بحث کئے بغیر محدثین رحمہم اللہ نے متن میں صرف علامت کی موجودگی کی بناء پر حدیث پر مردود کا حکم لگایا ہو۔چنانچہ علل الحدیث کے تحت جو بحثیں کی جاتی ہیں کہ حدیث اگر عقل کے موافق نہ ہو، قرآن کے احکام کے بظاہر (کیونکہ حدیث اور قرآن میں اصلاً مخالفت نہیں ہے۔ اس پر تمام امت کا اتفاق ہے) مخالف ہو، یا اصول کے مناقض ہو، تو ان علامات کی بنیاد پر راویوں (سند)کی جانچ پرکھ دوبارہ کی جاسکتی ہے تاکہ اصل معاملہ سامنے آجائے، جیسا کہ علامہ شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) نے سیرۃ النبی کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے۔