کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 66
ہے،کیونکہ اصطلاح محدثین رحمہم اللہ میں روایت کا تعلق اگر نقل حدیث سے ہے تو درایت کا تعلق تحقیق حدیث کے ساتھ ہے۔ فن حدیث میں اصطلاحی درایت سے مراد ایسا علم ہے جس میں روایت کی حقیقت، اس کی انواع، اس کی شروط، اس کے احکام، اس کے رواۃ، رواۃ کے حالات، ان کی شروط اور ان سے متعلقہ اشیاء کی پہچان حاصل کی جاتی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’روایت‘ کا مطلب ہے: حدیث رسول کو منتقل کرنا، اور ’درایت‘ کا مطلب ہے: حدیث رسول کی تحقیق کرنا۔ مفہوم مشترک یہ ہوا کہ حدیث رسول کو تحقیق کے بعد آئندہ نسلوں یا شاگردوں تک منتقل کرنا۔ اس اعتبارسے گویا روایت کے اندر ہی درایت کا معنی بھی پایا جاتا ہے اور درایت کے اصول بھی وہی ہوں گے جو روایت کے اصول ہیں ۔ ٭ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ (م ۱۳۰۷ ھ) روایت اور اصول روایت کی تعریف میں لکھتے ہیں : ھو علم یبحث فیہ عن کیفیۃ اتصال الأحادیث بالرسول من حیث أحوال رواتھا ضبطا وعدالۃ،ومن حیث کیفیۃ السند اتصالا وانقطاعا وغیر ذالک من الأحوال یعرفھا نقاد الأحادیث وموضوعہ ألفاظ الرسول من حیث صحۃ صدورھا عنہ و ضعفہ إلی غیر ذالک ۳۴؎ ’’روایت وہ علم ہے جس میں احادیث واخبار کے راویوں کی عدالت وحفاظت کے اعتبار سے سلسلۂ سند کے انقطاع واتصال وغیرہ سے بحث ہوتی ہے اور ان سے احادیث کی جانچ پڑتال کے ماہرین ہی واقف ہوتے ہیں ۔ نیز علم حدیث میں روایت میں زیر بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ، ان سے ان کے صدور کا ثبوت یا ان کے ضعف وغیرہ کے لحاظ سے ہوتی ہیں ‘‘۔ محدثین رحمہم اللہ نے درایت حدیث کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے: علم الحدیث الخاص بالدرایۃ: علم یعرف منہ حقیقۃ الروایۃ وشروطھا وأنواعھا وأحکامھا وحال الرواۃ وشرطھم وأصناف المرویات وما یتعلق بھا ۳۵؎ ٭ طاہر بن صالح الدمشقی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۸ ھ)فرماتے ہیں : علم درایۃ الحدیث علم یعرف منہ أنواع الروایۃ وأحکامھا وشروط الرواۃ وأصناف المرویات واستخراج معانیھا ۳۶؎ درایت حدیث وہ علم ہے جس سے راوی کی شرطیں ، روایت کی قسمیں اور اس کے احکام کی معرفت ہوتی ہے۔ نیز مرویات کی قسمیں اور ان کے معانی کے استخراج کا علم ہوتا ہے۔‘‘ ٭ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں : علم الحدیث درایۃ: ھو علم بقوانین یعرف بھا أحوال السند والمتن ۳۷؎ چنانچہ درایت حدیث کا تعلق ایسے قوانین و اصول سے ہے جن کے ذریعے سند اور متن کے کل قسم کے احوال پر سیر حاصل بحث کی جائے۔ اس علم پر مصطلح الحدیث ، علوم الحدیث، اصول الحدیث اور علم الحدیث کا اطلاق بھی کیا جاتا ہے۔۳۸؎ ٭ مولانا عبدالوہاب عبداللطیف رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’علم درایت حدیث متاخرین کی اصطلاح ہے یعنی ان علماء کو جو خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) کے بعد اور علامہ ابن الاکفانی رحمہ اللہ (م ۷۴۹ ھ) کے زمانہ میں آئے پھر اس اصطلاح کو جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ)نے تدریب میں اختیار کیا لیکن ان سے پہلے تمام متقدمین کے نزدیک احادیث کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کیفیت اتصال کی معرفت، جو رواۃ کی کیفیت احوال یعنی ضبط و عدالت اور سند کی کیفیت اتصال و انقطاع وغیرہ سے حاصل ہونی ہے، علم الحدیث کہلاتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس پر متاخرین کے نزدیک علم درایۃ الحدیث