کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 64
2۔ ذیل میں ان اہل لغت کے حوالے پیش کیے جارہے جو لفظ ’درایت‘ سے ناقص علم یا ناقص فہم مراد لیتے ہیں اور اسے عین علم کا مترادف خیال نہیں کرتے ہیں : ٭ تاج العروس میں ہے: إن دری یکون فیما سبقہ شک، أو علمتہ بضرب من الحیلۃ،ولذا لایطلق علی اللّٰہ تعالیٰ۲۶؎ ’’درایت اس شے کا علم ہوتا ہے جس میں شک لاحق ہوچکا ہو یا جسے حیلہ کے طریقے سے معلوم کیا جائے۔ اس لئے اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر نہیں ہوتا۔‘‘ ٭ امام راغب رحمہ اللہ (م ۵۰۲ ھ) فرماتے ہیں : ’’کسی دوسری چیز کی وساطت ، تدبیر یا حیلہ سے کسی بات کا علم ہونا درایت کہلاتا ہے۔‘‘۲۷؎ ٭ مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ (م ۱۴۱۶ ھ) اس سلسلہ میں لکھتے ہیں : ’’یہ علم ناقص ہوتا ہے کیونکہ بالواسطہ حاصل ہوتا ہے اور اس پر ہمیشہ لا، یا،ما،یا ،إن نافیہ یا استفہامیہ داخل ہوتا ہے۔‘‘۲۸؎ مثلاً: ﴿قُلْ إِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ یَجْعَلُ لَہٗ رَبِّی أمَدًا ﴾ ۲۹؎ ’’کہہ دو کہ جس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ (دن) قریب آنے والا ہے یا میرے پروردگار نے اس کی مدت دراز کردی ہے۔‘‘ ﴿ وَمَا أَدْرَاکَ مَاھِیَۃ ، نَارٌ حَامِیَۃٌ ﴾ ۳۰؎ ’’ اور تم کیا سمجھے کہ ہاویہ کیا چیز ہے وہ دھکتی ہوئی آگ ہے۔‘‘ ﴿ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللّٰہ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَمْرًا ﴾ ۳۱؎ ’’تجھ کو خبر نہیں شاید اللہ پیدا کردے اس کے بعد نئی صورت۔‘‘ درایت کی ان تعاریف سے واضح ہوتا ہے کہ لغت میں اس سے مراد ایسا فہم ہے جو علم کے مقابلے میں ناقص اور بالواسطہ ہوتا ہے۔ اس لئے لغوی اعتبار سے ان کا ا طلاق قطعی نہ ہوگا۔ درایت کا اصطلاحی مفہوم پیچھے ہم یہ بات بیان کرچکے ہیں کہ متقدمین کے ہاں درایت کو الگ سے کسی اصطلاح کے طور پر قطعا استعمال نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ تحقیق روایت کے سلسلہ میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے مقرر کردہ اصول حدیث ہی ایک ایسی کسوٹی تھی جن پر اگر کوئی روایت قابل اعتماد قرار پاتی ہے تو ساتھ کے ساتھ وہ تحقیق کے جمیع معیارات پر بھی پورا اترتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تحقیق روایت کے مستقل اصول یا اصطلاح کے طورپر اس کا استعمال متقدمین اہل علم کے ہاں بہت نادر ہے۔ اور اگر کہیں لفظ’درایت‘ کا استعمال کیا بھی گیا ہے تو وہ بھی محض اس کے لغوی معنی کے طور پر، اور بس! جیساکہ مذکورہ لغوی تعریفات میں ’درایت‘ کا معنی فہم ناقص یا علم کامل ہی مستعمل ہوا ہے، لیکن متاخرین نے لفظ’درایت‘ کو ایک اصطلاحی معنی پہنا دیے ہیں اور اس کا استعمال صرف علوم حدیث میں متن حدیث کی تحقیق میں کرنا شروع کردیا ہے۔ لہذا اب حدیث کی نقد وجرح کو نئے استعمالات میں ’درایت‘ کہا جاتا ہے۔ المختصر ہمارے خیال میں لفظ ’درایت‘ کا کوئی ایسا مستقل استعمال متقدمین کے ہاں مفقود ہے جو ماہرین فن کی اصطلاح کے طور پر معروف ہوجائے، لہٰذا درایت کسی خاص علم کی کوئی ایسی اصطلاح نہیں ہے جس کی تسلی بخش ، دو ٹوک انداز میں ایسی جامع تعریف ہوسکے