کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 62
درایت کا معنی ومفہوم دین اسلام اللہ تعالیٰ کی ابدی ہدایت کا نام ہے جو کتاب وسنت کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ لہٰذا امت کے آخری پیدا ہونے والے شخص تک اس دین کا بتمام وکمال پہنچ جانا ایک لازی ولابدی امر ہے۔ علمائے امت نے اس فریضہ گراں بار کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے نقل وروایت کا طریقہ اختیار فرمایا ہے، لیکن یہ نقل برائے نقل یا روایت برائے روایت ہی نہ تھی بلکہ روایت کے انہی اصولوں میں وہ میزان اور ترازو بھی پایا جاتا تھا جس پر نقل وروایت کی ہر اعتبار سے مکمل تحقیق ہوجاتی تھی اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی پہلو ، خواہ اس کا تعلق تحقیق سند سے ہو یا تحقیق متن سے، تشنہ کام نہیں رہتا تھا۔ روایت کی تحقیق کے لیے جو فن متقدمین نے اختیار کیا اس میں ’درایت‘ کا مفہوم از خود شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ متقدمین کے ہاں ’درایت‘ کسی الگ فن کا نام نہیں ۔ چنانچہ عبد الوہاب عبد اللطیف فرماتے ہیں : ’’ علم درایت حدیث کے علم کوہی ’علم اصول الحدیث‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ‘‘۱۵؎ متاخرین نے علوم کی وسعت کے پیش نظر جب ہر فن کی اصطلاحات کو نکھار کر پیش کیا تو فن حدیث میں روایت کو درایت سے الگ کردیا۔ آج کل ہمارے زمانہ میں درایت کو چونکہ ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کے لغوی واصطلاحی مفاہیم کو بیان کریں ۔ درایت کا لغوی مفہوم دری یدری درایۃ، دریانا، دریاً، دریۃ کے معنی ’ معرفت‘ کے ہیں ۔۱۶؎ مقصود یہاں (علم حدیث میں ) روایت کی صحت یا ضعف کی معرفت کا حصول ہے۔ ذیل میں ہم درایت کا لغوی معنی بیان کرنے کے لیے علمائے لغت کے اقوال نقل کررہے ہیں ۔ بعض کے ہاں اس کا معنی’علم‘ کا ہے یعنی یہ علم کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اور بعض علمائے لغت اسے عین علم کے مترادف کے طور پر تو استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ اس سے ایسا فہم مراد لیتے ہیں جو علم کے مقابلہ میں ناقص ہوتا ہے، یا ایسا علم جس میں شک لاحق ہوتا ہے۔ 1۔ ذیل میں ان اہل لغت کے اقوال پیش کیے جارہے ہیں جو درایت کو ’علم‘ کے ہم معنی خیال کرتے ہیں : ٭ لسان العرب میں ابن منظور رحمہ اللہ (م ۷۱۱ ھ) لکھتے ہیں: دری الشئ دریا و دریا،عن اللحیانی،ودریۃ ودریانا ودراتہ: علمہ،ویقال: دریت الشئ أدریہ عرفتہ، وأدریتہ غیری اذا اعلمتہ درئیتہ و دریت بہ دریا ودرایۃ، ودرایۃ أی علمت بہ۱۷؎ واضح ہوگیا کہ علم حدیث میں درایت کے معنی روایت کے تحقیق، نقد اور صحت و ضعف کا حصول،اس کی معرفت اور اس کا علم ہے۔ ٭ لسان العرب میں ابن منظور رحمہ اللہ (م ۷۱۱ ھ)مزید لکھتے ہیں: دری الشیئ دریا ودرایۃ، عَلمہ ویقال: أتی ھذا الأمر من غیر دریۃ أی من غیرعلم ویقال: دریت الشیئ، أدریہ، عرفتہ وأدریتہ غیری إذا أعلمتہ وأدراہ بہ أعلمہ وفی التنزیل العزیز ﴿ وَلاَ أدْرَاکُمْ بِہٖ ﴾ وقولہ تعالیٰ ﴿ وَمَا أدْرَاکَ مَا الْحُطَمَۃ ﴾ تاویلہ أی شیئ أعلمک ما الحطمۃ وحکی ابن الأعرابی ما تدري ما دریتھا أی