کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 61
ان کے الفاظ کے نکھار پر مشتمل ہے۔ ٭ نور الدین عتر حفظہ اللہ روایت کی تعریف میں رقمطراز ہیں : ھو علم یشتمل علی أقوال النبی وأفعالہ وتقریراتہ وصفاتہ وروایتھا وضبطھا وتحریر ألفاظھا (أو الصحابی أوالتابعی)۱۰؎ ’’یہ وہ علم ہے جوکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، تقریرات اور صفات کے نقل و ضبط اور ان کے اقوال کے نکھار (اور صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال) پر مشتمل ہے۔‘‘ علم روایت کے آغاز کی فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حاصل ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں حدیث نبوی ایک علم تھا جسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے اور حاصل کرتے تھے۔ مذکورہ بیان سے واضح ہوگیا کہ کلام الٰہی اور سنت رسول کی روایت کو قرآن و حدیث کہاجاتا ہے۔چنانچہ علم روایت شرعیہ کا موضوع کلام الٰہی اور سنت رسول کی روایت بذریعہ خبر ہے۔ علم تفسیر میں روایت لفظ روایت بالعموم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات (خواہ تفسیر قرآن کے ضمن میں ہوں یا اس کے علاوہ) کی نقل کے لئے استعمال ہوتا ہے، لیکن علم تفسیر کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ تفسیری روایات ہیں جو مشکلات قرآن کی وضاحت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ، جیسا کہ ٭ علامہ محمد حسین ذہبی رحمہ اللہ عصرنبوی کی خصوصیات کے تذکرہ میں فرماتے ہیں : ’’جہاں تک دور روایت کا تعلق ہے اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مشکلات قرآن کی وضاحت فرما دیا کرتے تھے پھر صحابہ رضی اللہ عنہم باہم اس کو ایک دوسرے سے نقل و روایت کرتے اور آگے تابعین رحمہم اللہ تک پہنچاتے۔‘‘۱۱؎ تاہم علماء نے روایت کے اس ذخیرے میں صحابہ و تابعین کے ان تفسیری اقوال و آثار کو بھی شامل کیا ہے جن کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے یا وہ صحابہ و تابعین کی ذاتی آراء و اجتہاد پر مبنی ہیں ۔ ٭ علامہ سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ) فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، تقریرات اور صفات کے حوالے سے جو کچھ نقل کیا جائے اور راجح قول پر جو چیز صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ کی طرف بھی اس طریق پر منسوب ہو اس پر علم روایت کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘۱۲؎ تفسیر میں روایت کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں : ’’کتب حدیث میں تفسیری روایات کے لئے ایک باب مخصوص کردیا گیا تھا جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ کے اقوال وآثار کو یکجا کردیا جاتا تھا۔ اسی لئے بعض علماء کی رائے میں تفسیر کا تعلق’ روایت‘ کے ساتھ ہے جبکہ تاویل کا ’درایت‘کے ساتھ۔‘‘۱۳؎ علماء کے ہاں تفسیر بالروایہ کی اصطلاح کے ضمن میں روایت کا یہی مفہوم زیر موضوع ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر وہ تفسیر جو تفسیر القرآن باقوال الصحابہ وبأقوال التابعین کے طریقہ سے کی جائے، وہ ایسی تفسیر کو تفسیر بالروایہ میں ہی شمار کرتے ہیں ۔۱۴؎