کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 59
روایت کا معنی ومفہوم یہ بات تو معلوم ہے کہ انسان کے مشاہدہ کا دائرہ کار انتہائی محدود ہے، لہٰذا مشاہدہ کے ذریعہ سے حاصل کیا جانے والا علم بھی ’مشاہدے کے دائرہ کار‘ کے بقدر محدود ہی ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان اپنے فطری رجحانات کے پیش نظر وسعت علمی کی راہیں تلاش کرنے میں سرگرداں رہتا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حوادث جو اس کی پیدائش سے قبل رو نما ہوچکے ہیں یا وہ واقعات جو اس کی زندگی اور شعور کی حالت میں وقوع پذیر ہوئے مگر بعض وجوہات کی وجہ سے یہ ان تک رسائی حاصل نہ کرسکا تو یہ ان کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے۔ چنانچہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان میں دوسرے لوگوں کی خبر پر اعتماد کرے اور دوسرے لوگ جو اس واقعہ کے عینی شاہدین تھے، ان پر بھی لازم ہے کہ وہ ان کی روئیداد کو بیان کریں ۔ انتقال علم کی صدیوں سے یہی صورت معروف رہی ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ میں بھی علوم شریعہ کے اخذو اکتساب کا مدار اسی ذریعہ پر ہے، جسے محدثین کرام رحمہم اللہ کی فنی زبان میں ’روایت‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس مقام پر روایت کے لغوی واصطلاحی معنی کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں ۔ روایت کی لغوی تعریف ذیل میں ہم لفظ ’روایت‘ کی علمائے لغت اور اصحاب حدیث سے بیان کردہ لغوی واصطلاحی تعریف بیان کررہے ہیں ۔ اس کے بعد حاصل معنی سے ایک مشترکہ اور جامع تعریف ذکر کریں گے جو مذکورہ تمام تعریفات کا خلاصہ ہوگی۔ لفظ روایت رویٰ یروی سے مصدر ہے جس کا معنی ہے: ’سیراب کرنا‘،۱؎ چونکہ روایت کے ذریعے پہلے آنے والا اپنے بعد میں آنے والے ہر شخص کو سرمایہ نبوت سے سیراب کرتا ہے اسلئے اسے روایت کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: مثل ما بعثنی اللّٰہ بہ من الھدی والعلم کمثل الغیث الکثیر أصاب أرضا ۲؎ ’’جس ہدایت اور علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس کی مثال اس کثیر بارش کی سی ہے جس نے زمین کو سیراب کیا۔‘‘ اس حدیث کی وضاحت میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ ھ) فرماتے ہیں : الحدیث فیہ بیان قبول أھل العلم ھدایتہ بأحد وجھین الروایۃ صریحا والروایۃ دلالۃ بأن استنبطوا وخبروا بالمستنبطات۳؎ اہل علم نے نبی کی ہدایت کو دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے قبول کرلیایا صریح روایت کے ذریعہ سے یا دلالت روایت کے ذریعہ سے، بایں طور کہ انہوں نے مسائل کا استنباط کیا اور لوگوں کو باخبر کیا۔ ٭ ابن منظور رحمہ اللہ (م ۷۱۱ھ)’لسان العرب ‘ میں بیان کرتے ہیں : تروی: معناہ تستقی، یقال قد روی معناہ استقی علی الراویۃ ویقال: رویت علی أھلی أروی ریۃ۔ وقال ابن السکیت: یقال رویت القوم أرویھم إذا استقیت لھم۔ ویقال: من أین رییتکم أی من أین ترتوون الماء۔ ورویت علی البعیر ریا: استقیت علیہ۴؎