کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 58
ایک ضروری وضاحت یہاں ایک سوال ذہن میں یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ باب کا نام ہے: ’’اِسنادو متن ....معنی، مفہوم اور ارتقاء‘‘ جبکہ اس باب کی تیسری فصل کا عنوان ہے: ’’ روایت ودرایت....معنی ومفہوم اور مختلف علوم میں ان کا استعمال ‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر روایت و درایت کا اسناد ومتن کے ساتھ تعلق کیا ہے، کہ درمیان میں اس کے لیے الگ فصل قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس اشکال کو رفع کرنے کے لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فصل کے ابتدا ہی میں اس سوال کا تسلی بخش جواب فراہم کردیا جائے تاکہ فصل کی باب کے ساتھ مناسبت معلوم کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ ہمارے ہاں جدید معاشرتی اصطلاح میں ’روایت ودرایت‘ کو دراصل ’اسنادومتن‘ کے دوسرے نام کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور بعض حضرات اس فکر کو بڑے شدو مد سے پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’روایت‘ سے مراد ’سند‘ کی تحقیق اور ’درایت‘ سے مراد’ متن‘ کی تحقیق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محدثین رحمہم اللہ کے وضع کردہ اصول حدیث اپنے دائرہ کار یعنی تحقیق سند میں تو کافی شافی ہیں ، لیکن تحقیق متن پر انہوں نے کوئی خاص توجہ مبذول نہیں کی، بلکہ اس باب میں ان کی کاوش نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا اب تحقیق متن کے چند مسلمہ اصول وضع کردینے چاہئیں جو علم حدیث میں پائی جانے والی تحقیق متن کی اس کمزوری کو ختم کردیں ۔ ہمارے خیال میں ان حضرات کا قائم کردہ مقدمہ اور اس سے اخذ شدہ نتیجہ دونوں ہی ناقابل تسلیم ہیں ۔ نا تو یہ بات درست ہے کہ روایت سے مراد سند کی تحقیق اور درایت سے مرادمتن کی تحقیق ہوتی ہے اور نہ ہی یہ دعوی مبنی بر صواب ہے کہ چونکہ محدثین رحمہم اللہ نے اصول متن وضع کرنے کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں فرمائی، لہٰذا اس باب میں داد تحقیق دینا چاہیے۔ ہمارے اس دعوی کی ایک معقول وجہ یہ ہے کہ محدثین رحمہم اللہ کے روایت ودرایت کو سند ومتن کی تحقیق کے لیے الگ الگ اصطلاح کے طور پر قطعا استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اصطلاح ’روایت‘ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں سندو متن دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ چناں چہ محدثین کرام رحمہم اللہ جب فرماتے ہیں کہ ہذا حدیث صحیح یا ’’یہ روایت صحیح ہے‘‘ تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس خبر کو سند ومتن دونوں سے پرکھنے کے بعد اس کی نسبت الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ثابت قرار پائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متقدمین آئمہ حدیث کے ہاں روایت کی تعریف میں درایت کا مفہوم شامل ہوتا ہے اور جب وہ کسی حدیث یا روایت پر صحت یا ضعف کا حکم لگاتے ہیں تو وہ سند ومتن ہر دو اعتبار سے ہوتاہے۔ متقدمین آئمہ حدیث نے تحقیق روایت کے لیے جو کتب تصنیف فرمائیں انہیں اصول الروایہ ہی کے نام سے پیش کیا۔ چنانچہ علامہ خطیب رحمہ اللہ کی کتاب کا نام ہے: الکفایۃ فی علم الروایۃ۔ بنا بریں محدثین رحمہم اللہ کے مقرر کردہ اصول حدیث اس قدر جامع تھے کہ ان کے معیار پر پورا اترنے والی ہر حدیث سند ومتن یا بالفاظ دیگر روایت ودرایت ہر دو اعتبار سے قابل اعتماد ہوتی تھی۔ اب ہمارے زمانہ میں چونکہ روایت ودرایت کو مختلف معانی میں استعمال کیا جارہا ہے جس سے خلط مبحث پیدا ہوا چاہتا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اشکال کی پوری پوری وضاحت کردی جائے کہ روایت ودرایت سے مراد کیا ہے؟ اس کا اسناد ومتن کے ساتھ تعلق کیا ہے؟ محدثین کرام رحمہم اللہ کے وضع کردہ اصول حدیث کی نوعیت کیا ہے؟ درایت کے غلط استعمال سے خرابی کیا پیدا ہوتی ہے؟ اور یہ کہ مختلف علوم میں درایت کن معانی میں مستعمل ہے؟ آئندہ صفحات میں انہی سوالات کے تسلی بخش جوابات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔