کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 51
الإسناد (لطائف الإسنادوما یتعلق بہ (معرفۃ الرواۃ) ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دوسرا باب ’رواۃ سند ‘ کی جرح وتعدیل کے ضوابط پر مشتمل ہے، جبکہ تیسرے باب میں ’سند حدیث‘ کے متنوع موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔چوتھے باب کا پہلا حصہ’سند حدیث‘ کے ہی متنوع اوصاف اور لطائف پر مشتمل ہے ، جبکہ اس باب کے دوسرے حصے میں ’ رواۃ سند‘ کی متنوع اقسام کی معرفت پر بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا پہلا باب سب سے اساسی ہے، جس میں کسی بھی خبر کے قبول ورد کی ان عمومی شرائط پر بحث کی گئی ہے، جوکہ سند ومتن دونوں کی تحقیق پر محیط ہوتی ہیں ۔ عہد خیر القرون سے جس طرح ہم دور سے دور ہوتے جارہے ہیں علمی زوال بڑھتا جارہا ہے، افسوس! اس سے ہمارے دینی علوم کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں رہا۔ عصر حاضر میں تحقیق حدیث کا جو اسلوب عام طور پرمعاصرنقاد حدیث کے ہاں ملتا ہے وہ محض تحقیق رواۃ یا اسماء الرجال کی چند کتب کھول کر حکم لگا دینے کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، جس سے یہ بد ظنی پیدا ہوئی ہے کہ متقدمین آئمہ حدیث کی تحقیق حدیث بھیشائد یہیں تک محدود تھی، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ متقدمین علمائے حدیث کے ہاں تحقیق حدیث کی بنیاد تو راویان حدیث ہی پر ہے، لیکن کسی بھی روایت پر حکم وہ صرف اسماء الرجال کی کتب کھول نہیں لگاتے بلکہ تحقیق حدیث میں روایت کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ در اصل اس فن میں تدوین کی گئی کتب میں موجود اصولوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور فن حدیث کے یہ اصول الحمد للہ صرف رواۃ کی تحقیق سے بڑھ کر اسناد و متن تینوں امور کی تحقیق پر مشتمل ہیں ۔ جس طرح اسلاف امت کا یہ عظیم الشان کارنامہ ہے کہ انہوں لاکھوں رواۃ کے مکمل حالات زندگی اسماء الرجال کی کتب کی صورت میں ہمارے سامنے پیش کردیے، اتنا ہی کارہائے نمایاں یہ بھی ہے کہ الحمد للہ ہمارے پاس نہ صرف اسماء الرجال پر وسیع انسائیکلو پیدیاز موجود ہیں بلکہ ایسے اصول تحقیق بھی موجود ہیں جس کی نظیر کوئی دوسری قوم یا اہل فن پیش نہیں کرسکتے۔ محدثین رحمہم اللہ کے مقرر کردہ نقد ِ سند ومتن کے انہی اصولو ں کی تفصیلباب ثانی میں ملاحظہ فرمائیے۔ ........٭٭٭........