کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 43
میں اور ایک مکتبہ کوبریلی (استنبول) وغیرہ میں ہے ۔ اب یہ کتاب علامہ محمد عجاج الخطیب حفظہ اللہ کی تحقیق کے ساتھ بیروت سے بھی طبع ہو چکی ہے۔ ٭ معرفۃ علوم الحدیث یہ کتاب ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم نیساپوری رحمہ اللہ (۳۲۱۔۴۰۵ھ) کی تصنیف ہے ۔ المحدّث الفاصل کے بعد یہ دوسری کتاب ہے جو اصولِ حدیث پر لکھی گئی ۔ اور یہی وہ پہلی کتاب ہے جس کا نام علوم الحدیث رکھا گیا ۔ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ اصولِ حدیث کی جامع پہلی کتاب یہی ہے کیونکہ المحدّث الفاصل علومِ حدیث کی انواع یکجا کرنے کے ساتھ مختص نہیں بلکہ اس میں تحمل واداء روایت کے متعلق زیادہ بیان ہے اور علومِ حدیث کی بہت سی اہم انواع اس میں موجود نہیں ۔ جیسے صحیح ، ضعیف ، مرسل اور معضل وغیرہ اور یہ بات اس کتاب کے عنوان سے بھی ظاہر ہے ، اس لیے اسے علومِ حدیث کی پہلی کتاب قرار دینا قرینِ قیاس نہیں بلکہ امام حاکم رحمہ اللہ (م ۴۰۵ ھ)نے ہی پہلی مرتبہ اصولِ حدیث یکجا کر کے کتاب کا نام علومِ حدیث رکھا تھا اور پھر بعد والے انہی کی پیروی میں اپنی کتابوں کا نام علومِ حدیث رکھتے گئے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) کے بقول یہ کتاب غیر مہذب تھی ۔۶۳؎ اس کتاب کی تالیف کا سبب امام حاکم رحمہ اللہ (م ۴۰۵ ھ) نے مقدمہ میں خود بیان کیا ہے کہ جب بدعات بکثرت پھیل گئیں ‘ لوگوں میں اصولِ حدیث کی معرفت کم ہو گئی اور وہ اخبار وروایات کو غفلت ولاعلمی میں ہی نقل کرنے لگے تو اس صورتحال نے مجھے ایسی کتاب مرتب کرنے پر آمادہ کیا جس میں بالاختصار ان اصولوں کا بیان ہو جن کی طلبائے حدیث کو ضرورت ہے ۔ آپ نے اس میں ۵۲انواع قائم کی ہیں اور علومِ حدیث سے متعلقہ تقریباً تمام ابحاث کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں آپ نے یہ اسلوب اختیار کیا ہے کہ پہلے نوع ذکر کرتے ہیں ، پھر اس کی وضاحت میں امثلہ پیش کرتے ہیں اور پھر اس سے متعلقہ مزید تفصیل ونکات کا ذکر کرتے ہیں ۔ اس میں آپ نے تمام روایات وآثار باسند ذکر کیے ہیں ۔ آپ نے کچھ ایسی انواع بھی قائم کی ہیں جو پہلے قائم نہیں کی گئی تھیں جیسے معرفۃ أولاد الصحابہ ، معرفۃ فقہ الحدیث ، معرفۃ أخبار لا معارض لھا ، معرفۃ مذاھب المحدثین اور معرفۃ مذاکرۃ الحدیث والتمییز بھا وغیرہ ۔ یہ کتاب مؤلف موصوف کے زمانے میں ہی لوگوں میں پھیل چکی تھی اوراس کے متعلق عجیب بات یہ ہے کہ حافظ ابو عمر الطلمنکی رحمہ اللہ (م ۴۲۹ ھ) محدث ِ مغرب نے یہ کتاب پانچ لوگوں کے واسطے سے مصنف سے روایت کی اور یہ مصنف کی زندگی میں ہی ہوا ‘ شاید ہی کوئی دوسرا مصنف ہو جس کے ساتھ ایسا ہوا ہو ۔۶۴؎ ٭ المستخرج علی معرفۃ علوم الحدیث بہرحال امام حاکم رحمہ اللہ (م ۵۰۴ ھ) کے بعد امام ابونعیم رحمہ اللہ (م ۴۳۰ ھ) نے امام حاکم کی کتاب پر’ مستخرج‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی اور اس میں ان اشیاء کا اضافہ کیا جو امام حاکم رحمہ اللہ سے رہ گئی تھیں ۔ پھر علامہ طاہر الجزائری رحمہ اللہ (م ۱۳۳۸ ھ) نے امام حاکم کی مذکورہ کتاب کی تلخیص کی ‘ جس کا نام توجیہ النظر ہے اور یہ متعدد بار شائع ہو چکی ہے ۔ اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ کی کتاب’ معرفہ علوم الحدیث‘ پر حواشی بھی لکھے گئے، جن میں سے ایک تو حافظ موتمن الساجی رحمہ اللہ کا ہے اور دوسرا ابن صلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ)کا۔ اس کتاب کے متعدد نسخے دنیا کے مختلف مکتبات میں موجود ہیں ، مثلاً ایک نسخہ مکتبہ عارف حکمت مدینہ منورہ میں ہے ‘ دوسرا دار