کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 42
تہذیب الکمال ، از امام مزی رحمہ اللہ (۷۴۲ھ) 2۔ الکاشف ، از امام ذہبی رحمہ اللہ (۷۴۸ھ) تہذیب التھذیب ، از حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) 4۔ تقریب التھذیب، از حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۸۵۲ھ) یہ تو وہ کتب تھیں جو نقد ِحدیث کی ایک صورت یعنی رواۃ کی جرح وتعدیل سے متعلقہ تھیں ۔ علاوہ ازیں اس کے ساتھ ساتھ نقد ِ سند ومتن کے دیگر اصولوں کو بھی کامل شکل میں مرتب کیا گیا اور ان کتب کو اصولِ حدیث اور علومِ حدیث کا نام دیا گیا ۔ اس سلسلے کی چند اہم کتب اور ان کا تعارف پیش خدمت ہے ۔ ٭ المحدّث الفاصل بین الراوی والواعی یہ کتاب ابو محمد حسن بن عبد الرحمن بن خلاد رامہرمزی رحمہ اللہ (۲۶۵۔۳۶۰ھ)کی تالیف ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) نے اسے نامکمل قرار دیا ہے ۔۶۰؎ یہ کتاب اصولِ حدیث پر لکھی جانے والی پہلی کتاب شمار کی جاتی ہے ‘ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) نے ہی یہ بات نقل فرمائی ہے۔۶۱؎ اس کے لیے بطور ِ دلیل یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ اس فن میں کسی بھی دوسری کتاب کا ذکر نہ تو آپ سے قبل ملتا ہے اور نہ ہی آپ کے زمانے میں ۔ اگرچہ اس فن کے متعلق مختلف تحریری اشیاء موجود تھیں لیکن اپنے دور کی سب سے جامع کتاب یہی ہے ۔ اس کتاب کے متعلق امام ذہبی رحمہ اللہ (م ۷۴۸ ھ) نے کہا ہے کہ یہ علومِ حدیث کی بہت ہی عمدہ کتاب ہے ۔۶۲؎ اس کتاب میں مؤلف موصوف نے پہلے حدیث اور رواۃِ حدیث کا مقام ومرتبہ واضح کیا ہے اور اس کے لیے آیات واحادیث اور اہل علم کے اقوال سے استشہاد کیا ہے ۔ پھر عالی اور نازل سند کے متعلق گفتگو کی ہے ۔ پھر ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے طلب علم میں مختلف علاقوں کا سفر کیا ۔ پھر ان کا ذکر کیا ہے جنہوں نے ایسا کوئی سفر نہیں کیا ۔ پھر آپ نے جمع بین الروایہ والدرایہ کے متعلق مختلف اخبار وآثار نقل کیے ہیں جن سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ پھر آپ نے ان رواۃ کے اسماء کا ذکر کیا ہے جن میں اکثر علماء کو وہم ہو جاتا ہے اور اس بحث کو مختلف عناوین کے تحت ذکر کیا ہے، جیسے المعروفون بأجدادھم المنسوبون إلیھم دون آبائھم وغیرہ ۔ پھر اسی طرح روایت ودرایت کے متعلق مختلف انواع قائم کی ہیں ۔ پھر مختلف عناوین کے تحت طرق تحمل روایت پر بحث کی ہے ۔ پھر حفظ ِ حدیث کی ضرورت پر کلام کیا ہے اور اس سلسلے میں مختلف شیوخ کے احوال نقل کیے ہیں ۔ پھر اسی طرح چلتے چلتے اس عنوان المصنفون من رواۃ الفقہ فی الأمصار پر جا کر کتاب کو ختم کیا ہے۔ اس کتاب کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں اکثر وبیشتر ابحاث تحمل ِحدیث ، ادائے حدیث اور سماعِ حدیث سے متعلق ہیں اور اس کے متعلق یہ کہنا بھی بے جا نہیں کہ یہ کتاب خطیب رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) کی الجامع لاخلاق الراوی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ بہرحال اس فن کی پہلی کتاب ہونے کے باعث اس کی قدروقیمت بہت زیادہ ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) کی یہ بات کہ یہ نامکمل ہے ‘ اس کی اہمیت میں کچھ بھی کمی نہیں کرتی ‘ کیونکہ اس کے لیے بطور ِ شرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ یہ اس فن کی اولین کتاب ہے۔ امام رامہرمزی رحمہ اللہ (م ۳۶۰ ھ) نے اس کے ذریعے اہل علم کے بہت سے ایسے اقوال محفوظ کر کے ہم تک پہنچائے ہیں جن تک پہنچنا کسی اور ذریعے سے ممکن نہ تھا اور غالباً یہی اقوال ہی اس کتاب کا مصدر ِ وحید ہیں ۔ اس کتاب کے مختلف نسخے دنیا کی مختلف لائبریریوں میں موجود ہیں ، جیسے ایک نسخہ دار الکتب الظاھریۃ (دمشق) میں ، ایک مکتبہ التکیہ الاخلاصیہ (حلب) میں ، ایک مکتبہ اسکوریال (سپین) میں ، ایک مشہد (ایران) میں ، ایک مکتبہ شہید (استنبول)