کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 40
سعید القطان رحمہ اللہ (۱۲۰۔۱۹۸ھ) اور عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ (۱۲۵۔۱۹۸ھ) شا م کے ابو سمہر رحمہ اللہ (۱۴۰۔ ۲۱۸ھ) اور خراسان کے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م ۱۸۱ ھ) قابل ذکر ہیں ۔ تابعین رحمہم اللہ کے بعد ان اہل علم نے حفاظت ِ حدیث اور تحقیق ِحدیث کے حوالے سے قابل قدر خدمات انجام دیں ۴۵؎ حتی کہ اس دور کے دو حضرات یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ (م ۱۹۸ ھ) اور عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ (م ۱۹۸ ھ) نے اس کام کو ایک مستقل فن کی حیثیت دی ۔ پھر ان دونوں نے جسے مجروح قرار دیا شاید ہی کسی اورنے اسے مجروح قرار نہ دیا ہو اور انہوں نے جس کی توثیق کی وہ سب کے ہاں مقبول قرار پایا اور جس کے متعلق انہوں نے اختلاف کیا (او ر ایسا بہت کم ہے) تو دوسروں نے اس کے متعلق اپنے اجتہاد سے رائے قائم کرلی ۔۴۶؎ ٭ امام رامہرمزی رحمہ اللہ (م ۳۶۰ ھ)اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) اس سلسلہ میں کہ امام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ)نے رواۃ کی جرح وتعدیل کے لیے نہایت دقیق منہج وضع کیا ہے، فرماتے ہیں : ’’ امام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ) نے فرمایا کہ چار طرح کے آدمیوں سے علم (حدیث) حاصل کرنا جائز نہیں : 1۔ ’بیوقوف‘ جس کی بے وقوفی ظاہر ہو خواہ وہ بہت زیادہ روایت کرنے والا ہی ہو ۔ 2۔ ’جھوٹا‘ جو عام گفتگو میں جھوٹ بولتا ہو جب اس کے متعلق یہ تجربہ ہو جائے اگرچہ اس پر حدیث میں جھوٹ بولنے کا اتہام نہ بھی ہو۔ 3۔ ’بدعتی‘ جو لوگوں کو اپنی بدعت کی طرف بلائے ۔ 4۔ ایسا شیخ جو بڑا فضل والا اور عبادت گزار ہو مگر جو حدیث بیان کر رہا ہے، اسے نہ جانتا ہو ۔‘‘ ۴۷؎ ٭ محمد بن یوسف رحمہ اللہ (م ۲۱۲ ھ) فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ (م ۱۶۱ ھ) یہ کہا کرتے تھے: ’’ فلاں ضعیف ہے اور فلاں قوی ہے اور فلاں سے روایت مت لو ۔‘‘ ۴۸؎ ٭ منہال بن بحر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے شعبہ رحمہ اللہ (م ۱۷۰ ھ)سے سنا وہ فرماتے تھے: ’’ انظروا عمن تکتبون ’’دیکھا کرو کہ تم کس سے (حدیث) لکھ رہے ہو ۔ ‘‘۴۹؎ ٭ عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ (م ۱۹۸ ھ) فرماتےہیں : ’’ شعبہ رحمہ اللہ (م ۱۶۰ ھ) سے دریافت کیا گیا کہ کسی آدمی کی روایت کب ترک کیا جائے ؟ تو انہوں نے کہا: 1۔ جب کوئی معروف لوگوں سے ایسی بات روایت کرے، جسے معروف لوگ جانتے نہ ہوں ۔ 2۔ جب کوئی بہت زیادہ غلطیاں کرے ۔ 3۔ جب کسی پر جھوٹ کی تہمت ہو ۔ 4۔ جب کوئی ایسی حدیث روایت کرے جس کے غلط ہونے پر اتفاق ہو مگر وہ اسے چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو اس کی حدیث ترک کر دی جائے گی ۔‘‘۵۰؎ ٭ ابو ولید رحمہ اللہ (م ۲۲۷ ھ)نے کہا ہے: ’’ میں نے علم حدیث اور علم رجال میں یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ (م ۱۹۸ھ) سے زیادہ کوئی عالم نہیں دیکھا ۔‘‘۵۱؎