کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 4
٭ امام زرکشی رحمہ اللہ (م۷۹۴ ھ)نے فرمایا ہے:
السند ھو ما ارتفع وعلا عن سفح الجبل ۶؎
’’سند وہ چیز ہے جو اونچی ہو اور پہاڑ کے دامن سے بلند ہو ۔ ‘‘
٭ ڈاکٹر محمود طحان حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:
السند: لغۃ المعتمد وسمی کذلک لأن الحدیث یستند إلیہ ویعمتد علیہ۷؎
’’لغت میں سند معتمد یعنی قابل اعتماد چیز کا نام ہے ، اسے یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے جو حدیث روایت ہوتی ہے اس کی ثقاہت کا انحصار اسی پر ہوتا ہے ۔ ‘‘
٭ اصطلاحی مفہوم
اصطلاح میں ’سند‘ رواۃ کے اس سلسلے کو کہتے ہیں جو متن ِحدیث تک پہنچاتا ہے، بالفاظ ِدیگر سند متن ِحدیث سے پہلے مذکور اُس متن کے نقل کرنے والے رواۃ کو کہتے ہیں ۔
٭ ڈاکٹر نور الدین عتر حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
أما السند والمرادبہٖ عند المحدثین حکایۃ رجال الحدیث الذین رووہ واحد عن واحد إلی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ۸؎
’’رہی سند تو اس سے محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں رواۃ حدیث کی وہ حکایت ہے جو وہ ایک دوسرے سے تسلسل کے ساتھ یوں نقل کرتے جاتے ہیں کہ بالاخر اسے نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم تک جا پہنچاتے ہیں ۔ ‘‘
’سند‘ کی چند مزید اصطلاحی تعریفات درج ذیل ہیں:
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م۸۵۲ھ)نے فرمایا ہے:
ھو حکایۃ طریق المتن۹؎
’’سند متن کے طریق یا راستے کی حکایت کو کہتے ہیں ۔ ‘‘
٭ ’طریق‘ کی وضاحت میں علامہ عبد الرؤف المناوی رحمہ اللہ (م۱۰۳۱ھ) نے فرمایا ہے:
الطریق أسماء الرواۃ۱۰؎
’’طریق راویوں کے نام ہیں ۔‘‘
٭ بدر بن جماعہ رحمہ اللہ (م۷۳۲ھ)اور طیبی رحمہ اللہ (م۷۴۳ھ)کے حوالے سے امام سیوطی رحمہ اللہ (م۹۱۱ھ)اور شیخ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) فرماتے ہیں:
ھو الاخبار عن طریق المتن۔ قیل: فلان سند أی معتمد فسمی الاخبار عن طریق المتن سندا لاعتماد الحفاظ فی صحۃ الحدیث وضعفہ علیہ وأما الاسناد فھو رفع الحدیث الی قائلہ قال الطیبی وھما متقاربان فی معنی اعتماد الحفاظ فی صحۃ الحدیث وضعفہ علیہما وقال ابن جماعۃ:المحدثون یستعملون السند والاسناد لشیء واحد ۱۱؎
’’متن حدیث تک پہنچنے کے ذریعہ یا راستہ کی خبر کو سند کہا جاتا ہے ۔ یوں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص سند ہے یعنی قابل اعتماد ہے پس متن کے طریق کی خبر دینے کو سند اس لیے کہا جاتا ہے کہ حفاظ اس پر حدیث کی صحت یا ضعف کے فیصلہ کے لیے اعتماد کرتے ہیں جبکہ حدیث کو اس