کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 38
’’عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں ساتھ لے کر حج کیا ۔ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ہے ’’ اللہ تعالیٰ تمہیں عطا کرنے کے بعد علم کو ایک دم سے نہیں اٹھائے گا بلکہ اسے اس طرح ختم کرے گا کہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھالے گا ، پھر کچھ جاہل لوگ باقی رہ جائیں گے ، ان سے فتویٰ طلب کیا جائے گا اور وہ اپنی رائے کے مطابق فتویٰ دیں گے ، پس وہ لوگوں کو گمراہ کریں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے ۔ پھر میں نے یہ حدیث آپ صلی اللہ عليہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی ۔ اس کے بعد عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے دوبارہ حج کیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا ، بھانجے ! عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور میرے لیے اُس حدیث کو (دوبارہ) سن کر خوب پختہ کر لو جو تم نے مجھے ان کے واسطے سے بیان کی تھی ۔(عروہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ) میں ان کے پاس آیا اور ان سے (اس حدیث کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث اسی طر ح بیان کر دی جیسے وہ مجھ سے پہلے بیان کر چکے تھے ۔ پھر میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبر دی تو انہیں تعجب ہوا اور بولیں کہ واللہ ! عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے خوب یاد رکھا ہے ۔ ‘‘۳۶؎ ٭ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ٭ سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے دو سکتے یاد کیے ہیں ۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو اس کا انکار کیا اور کہا کہ ہم نے تو صرف ایک سکتہ ہی یاد کیا ہے ۔ سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم نے مدینہ میں موجود ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا تاکہ وہ اس مسئلے کی وضاحت فرما دیں تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے ۔ ‘‘۳۷؎ ٭ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ٭ امام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ ھ)نے نقل فرمایا ہے: ’’بشیر بن کعب رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور حدیث بیان کی ۔ ان عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ حدیث کا فلاں فلاں حصہ دوبارہ بیان کرو۔ انہوں نے اسے دوبارہ بیان کر دیا اور پھر حدیث بیان کی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پھر کہا کہ فلاں فلاں حصہ دوبارہ بیان کرو ۔ چنانچہ انہوں نے اسے پھر بیان کردیا ۔ ‘‘۳۸؎ ٭ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ’’جو جنازے کے پیچھے چلے گا اسے ایک قیراط ثواب ملے گا ۔ یہ حدیث سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق پوچھنے کے لیے کسی کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا ۔ جب اس نے جا کر دریافت کیا تو انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تصدیق کر دی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ۔ تب ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یقینا ہم بہت سے قیراط ضائع کر چکے ہیں ۔ ‘‘۳۹؎ ٭ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ٭ عبد اللہ بن خباب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ایک سفر سے واپس آئے تو ان کے گھر والوں نے ان کے سامنے قربانی کا گوشت پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ گوشت اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک اس کے متعلق کسی سے پوچھ نہ لوں (کیونکہ گزشتہ برس تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے منع فرما دیا تھا) چنانچہ وہ اپنے بھائی قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا ، وہ حکم اب ختم ہو چکا ہے ۔ ‘‘۴۰؎