کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 360
اعتراض معترضین کا کہنا یہ ہے کہ جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نحوست کے بارے میں یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں یعنی عورت، سواری اور گھر میں نحوست رکھی ہے تو ان کے جواب میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے قرآن کریم کی آیت: ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَفِیْ أَنْفُسِکُمْ اِلاَّفِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَأھَا﴾ پیش فرماکر ان پر رد کیا ہے، جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ جو حدیث قرآن کریم کے خلاف آرہی ہو اس کو اپنے مضمون کے اعتبار ہی سے رد کردیا جائے گا اور کسی قسم کی اِسنادی تحقیق کی قطعا کوئی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ جواب مذکورہ روایات کی طرح یہاں بھی ان حضرات کو اِستدراک عائشہ کے سمجھنے میں غلطی لگی ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصود قرآن کے مقابلہ میں حدیث رسول کو رد کرنا نہیں ہے، بلکہ آیت قرآنی پیش کرنے سے ان کے نزدیک اصل مقصود اس عقیدہ کی نفی کرنا ہے جو اہل جاہلیت کے ہاں معروف تھا کہ یہ چیزیں ذاتی طور پر نحوست کا سبب بنتی ہیں اور موجودہ دور میں ہندو معاشرہ میں بھی اس قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں کہ جو عورت چھوٹے قد کی ہو یا اس کی پنڈلیوں پر بال ہوں وہ جس گھر میں جائے خرابی پیدا کرتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسے جاہلانہ اعتقادات کی تردید کی اور کہا کہ آپ تو یہ اہل جاہلیت کے بارے میں فرماتے تھے اور اسی پر انہوں نے یہ قرآنی آیت ذکر کی کہ ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَفِیْ أَنْفُسِکُمْ اِلاَّفِیْ کِتَابٍ ....﴾ یعنی ’’ہر پہنچنے والی مصیبت لوح محفوظ میں پہلے سے درج ہے اور وہ اللہ کے حکم سے پہنچتی ہے بذات خود کوئی چیز کسی کے لئے منحوس نہیں ‘‘۔ جمع وتطبیق مذکورہ بالا حدیث نبوی اور آیت قرآنی کے مابین رونما ہونے والے ظاہری تعارض کو رفع کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ)کی فقاہت سے استفادہ کریں ۔ انہوں نے اپنی صحیح میں اس حدیث کی قرآن کریم کے ساتھ موافقت کو اجاگر کیاہے اور اس کے صحیح مفہوم کو قرآنی آیت کی روشنی میں متعین کردیا ہے وہ فرماتے ہیں:باب مایتقی من شؤم المرأۃ وقولہٖ تعالی: ﴿إنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوَّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ ﴾ ۲۹؎ اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ) یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس حدیث میں ’شوم‘ کا معنی نحوست یا کسی چیز کا منحوس ہونا نہیں ہے، جیسا کہ اہل جاہلیت سمجھتے تھے۔ بلکہ’ شوم‘ سے مراد وہی معنی ہے جو قرآنی آیت:﴿یٰااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوَّا لَّکُمْ ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ’’ اے مسلمانو! تمہارے بعض بیوی بچے تمہارے دشمن ہوتے ہیں ان سے بچ کر رہو۔‘‘ اِمام موصوف رحمہ اللہ کے ہاں حدیث میں وارد ’شوم‘ کے لفظ سے مراد وہ معنی نہیں جو اہل جاہلیت کے ہاں متعارف تھا اور جس کی تردید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کی ہے اور انہوں نے اسے خلاف قرآن کہا ہے، بلکہ’ شوم‘ سے مراد دین دشمنی ہے جس سے بچنا ضروری ہے اور یہ مفہوم قرآن کریم کے موافق ہے، بلکہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ان چیزوں کو دینی خرابی کی قید کے ساتھ ذکر کیا گیاہے، جس سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے جو اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ)نے اختیار کیا ہے۔ الفاظ حدیث ملاحظہ ہوں : عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم من سعادۃ ابن آدم ثلاثۃ ومن شقوۃ ابن آدم ثلاثۃ من