کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 36
أن الجدۃ جاء ت إلی أبی بکر رضی اللّٰہ عنہ تلتمس أن تورث فقال:ما أجد فی کتاب اللّٰہ شیئا،وما علمت أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ذکر لک شیئًا،ثم سأل الناس فقام المغیرۃ فقال:حضرت رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم یعطیھا السدس،فقال لہ:ھل معک أحد ؟ فشھد محمد بن مسلمۃ بمثل ذلک فأنفذہ لھا أبوبکر رضی اللّٰہ عنہ ۲۸؎ ’’کسی شخص کی دادی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی وراثت کے بارے میں سوال کرنے آئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:مجھے تیرے لیے کتاب اللہ میں کوئی حکم نہیں ملتا اور نہ ہی مجھے علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے تیرے بارے میں کوئی حکم فرمایا ہو ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم دادی کو چھٹا حصہ دیتے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:کیا تیرے ساتھ کسی اور کو بھی یہ حدیث معلوم ہے ؟ تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسی کے مثل شہادت دی ۔ تب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کے لیے یہ حکم نافذ کر دیا ۔ ‘‘ ٭ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ٭ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: أن أبا موسی رضی اللّٰہ عنہ سلم علی عمر رضی اللّٰہ عنہ من وراء الباب ثلاث مرات فلم یؤذن لہ فرجع فأرسل عمر رضی اللّٰہ عنہ فی أثرہ ، فقال:لم رجعت ؟ قال:سمعت رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم یقول:إذا سلم أحدکم ثلاثا فلم یجب فلیرجع ، قال:لتأتینی علی ذالک ببینۃ أو لأفعلن بک ، فجاء نا أبو موسی منتقعا لونہ ونحن جلوس فقلنا ، ما شأنک ؟ فأخبرنا وقال:فھل سمع أحد منکم ؟ فقلنا نعم،کلنا سمعہ، فأرسلوا معہ رجلا منہم حتی أتی عمر فأخبرہ ۲۹؎ ’’ایک مرتبہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دروازہ کی اوٹ سے ملاقات کے لیے بطور ِاجازت سلام کیا ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت نہ دی تو وہ لوٹ گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے کسی کو بھیج کر انہیں بلایا اور پوچھا کہ تم واپس کیوں لوٹ گئے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’اگر تم میں سے کوئی کسی کو تین مرتبہ سلام کرے اور وہ جواب نہ دے تو سلام کرنے والا واپس لوٹ جائے ۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اس حدیث پر تم گواہی لے کر آؤ ورنہ تم دیکھنا کہ میں تمہارا کیا حال کرتا ہوں ۔ یہ سن کر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مارے پاس آئے اور ان کی حالت یہ تھی کہ ان کا رنگ فق پڑا ہوا تھا اور ہم بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہم نے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے ؟ انہوں نے ہمیں سارا ماجرہ سنا دیا اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے یہ حدیث سنی ہے ؟ ہم نے جواب دیا کہ ہاں ، ہم نے اسے سنا ہے ۔ پھرہم نے اپنے میں سے ایک شخص ان کے ساتھ بھیج دیا ، جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر اسکی خبر دی۔‘‘ ٭ امام ذہبی رحمہ اللہ (م ۷۴۸ ھ) نے اس روایت کے متعلق فرمایا ہے: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش یہ تھی کہ کسی دوسرے ساتھی کی شہادت کے ذریعے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خبر مزید پختہ ہو جائے کیونکہ ایک انسان کو وہم ونسیان لاحق ہو سکتا ہے جب کہ دو ثقہ آدمی اگر ایک ہی بات بیان کریں تو پھر یہ خدشہ رفع ہو جاتا ہے ۔ ‘‘۳۰؎ ٭ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے: أن عمر استشارہم فی املاص المرأۃ یعنی السقط فقال المغیرۃ:قضی فیہ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم بغرۃ،فقال لہ عمر:إن کنت صادقا فات أحدا یعلم ذلک قال فشہد محمد بن مسلمۃ أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قضی بہ۳۱؎ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اگر کوئی شخص کسی حاملہ کے حمل کو ضرب پہنچاکر ساقط کر دے تو اس کی دیت کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس بارے میں ایک غلام کا فیصلہ فرمایا ہے ۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا ، اگر تم سچے ہو تو کسی ایسے شخص کی شہادت لاؤ جو اس فیصلہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف ہو ۔ پس محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے شہادت دی