کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 359
علی بن سعید اِمام دارقطنی رحمہ اللہ (م ۳۸۵ ھ) فرماتے ہیں:لیس بذاک تفر بأشیاء یعنی یہ حدیث قوی نہیں ہے اور دیگر بہت سی روایات میں منفرد ہے، اس روایت کی دیگر روایات سے متابعت بھی نہیں ہوتی۔ حمزہ بن یوسف (م ۴۲۷ ھ)کہتے ہیں:سألت الدارقطنی عنہ فقال: لیس فی حدیثہ بذاک یعنی میں نے امام دارقطنی رحمہ اللہ (م ۳۸۵ ھ)سے علی بن سعید (م ۲۹۹ ھ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی بیان کردہ حدیث قبول کی جائے۔نیز فرمایا: وقد تکلم فیہ أصحابنا بمصر وأشاربیدہٖ وقال ھو کذا وکذا ونفض بیدہ یقول:لیس بثقۃ یعنی’’ مصر میں محدثین کرام رحمہم اللہ نے اسے متکلم فیہ کہا ہے اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے فرمایا کہ یہ راوی ایسا ویسا ہے اور حدیث بیان کرنے میں ثقہ نہیں ہے بلکہ غیر معتبر راوی ہے۔ ‘‘ ۲۵؎ محمد بن عمرو دوسرا غیر معتبر راوی اس میں ’’محمد بن عمرو (م ۱۴۵ ھ)‘‘ ہے، جس کے متعلق یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (م ۲۳۳ ھ)کہتے ہیں:مازال الناس یتقون حدیثہ یعنی ’’لوگ اس کی حدیث قبول کرنے سے ہمیشہ گریز کرتے رہے ہیں ۔‘‘ ۲۶؎ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)فرماتے ہیں:محمد بن عمرو اللیثی المدنی صدوق لہ أوہام من السادسۃ۲۷؎ واضح رہے کہ جس راوی کے بارہ میں محدثین صدوق کہیں تو اس کی روایت قابل استدلال نہیں ہوتی، خاص کر جبکہ وہ وہمی بھی ہو اور عیسیٰ بن واقد نیز عبداللہ بن أبی رومان (م ۲۵۶ ھ) کا تفرد اس پر زیادہ ہے۔ خلاصۂ کلام اصول حدیث کی روشنی میں راویان حدیث پر محدثین کرام رحمہم اللہ کی طرف سے کی جانے والی نقدو جرح کے بعد یہ بات ألم نشرح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ روایت اس قابل نہیں ہے کہ اس سے استناد کیا جاسکے یا کسی صحیح روایت کے بالمقابل پیش کرکے تعارض احادیث کی لایعنی کوشش کی جاسکے۔ لہٰذا یہ روایت صحیح ثابت ہی نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہا ہے کہ جو آدمی وتر کی نماز نہ پڑھے اس کی کوئی نماز قبول نہیں اور نہ ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس پر کوئی تنقید کی ہے۔ 4۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ((الطیرۃ فی المرأۃ والدابۃ والدار)) ’نحوست عورت میں ، سواری کے جانور میں اور گھر میں ہے‘‘ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: والذی أنزل الفرقان علی أبی القاسم، ما ہکذا کان یقول ولکن کان یقول کان أہل الجاہلیۃ یقولون: الطیرۃ فی المرأۃ والدابۃ والدار، ثم قرأت عائشۃ: ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَفِیْ أَنْفُسِکُمْ اِلاَّفِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَأھَا﴾ ۲۸؎ ’’ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں کہا تھا، آپ تو اہل جاہلیت کے بارے میں فرماتے تھے کہ وہ یوں کہتے ہیں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَفِیْ أَنْفُسِکُمْ اِلاَّفِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَأھَا﴾ ‘‘