کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 358
اعتراض
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اِستدراک سے اعتراض کا پہلو یہ نکلتا ہے کہ جب ان کے سامنے ایک ایسی روایت بیان کی گئی جو اپنے مضمون کے اعتبار سے دوسری صریح روایت کے خلاف تھی تو انہوں نے اس حدیث کو یہ کہتے ہوئے رد فرمادیا کہ جب ایک عام مسلمان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور ان میں وترکی فرضیت کا تذکرہ نہیں آتا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص کی جملہ فرضی عبادات صرف اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بارگاہ میں ناقابل قبول قرار پائیں کہ اس نے غیر فرضی نماز کو ادا کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ معترضین کا محل استدلال یہ ہے کہ اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی واقعہ کو نقدروایت میں درایتی نقد کی بنیاد پر رد کردینا چاہیے، خواہ یہ حدیث روایۃ صحیح ہی کیوں نہ ہو۔
جواب
حدیث پر اعتراض کرنے والوں کا زیادہ تر انحصار چونکہ عقل پر ہوتا ہے اور وہ تحقیق میں اترنے سے گریز اختیار کرتے ہیں اور تعارض روایات پیش کرنے میں بڑی چا بک دستی اور سرعت بیانی کے جوہر دیکھاتے ہیں اور انہیں اس بات سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا کہ حدیث کا پایہ معیار اصول ِروایت کی رو سے کس قسم کا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی حدیث روایۃً صحیح بھی ہو تو ان کے مقرر کردہ اصول ِدرایت کی بنا پر ضعیف قرار پا سکتی ہے۔ درج بالا روایت میں بھی انہوں نے تحقیق سند کے معیار کو ملحوظ نہیں رکھا اور جھٹ سے اپنے درایتی اصول کی بنیاد پر تعارض ِاحادیث کا ڈھنڈورا پیٹا ہے، حالانکہ اصول تحقیق کی روشنی میں اگر اس روایت کو پرکھا جائے تو یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہوسکی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم آئمہ جرح وتعدیل کے اقوال کی روشنی میں اس سند کے رواۃ کے احوال جائزہ یہاں پیش کردیں ۔
روایت مذکورہ کی اسنادی حیثیت
’اہل درایت‘ نے جس روایت کو اپنے دعوائے درایت کے اثبات کے لیے بنیاد بنایاہے وہ روایت ہی صحیح نہیں ۔ ہم اس روایت کو بمع سند مکمل نقل کریں گے اور پھر اس کے ضعف کی وضاحت کریں گے۔ روایت بمع سند یوں ہے :
قال الطبرانی فی الاوسط: حدثنا علی بن سعید الرازی ثنا عبداللّٰہ بن أبی رومان الاسکندرانی ثنا عیسیٰ بن واقدنا محمد بن عمرو عن أبی سلمۃ عن أبی ہریرۃ أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قال: من لم یوتر فلا صلوٰۃ لہ فبلغ ذلک عائشہ فقالت: من سمع ھٰذا من أبی القاسم صلي اللّٰه عليه وسلم مابعد العھد وما نسینا إنما قال أبوالقاسم صلي اللّٰه عليه وسلم:من جاء بصلوات الخمس یوم القیمۃ حافظ علی وضوئھا ومواقیتھا ورکوعہاوسجودھا لم ینتقص منھن شیئا کان لہ عنداللّٰہ عہد ألایعذبہ ومن جاء وقد انقص منھن عذبہ ثم قال لم یروہ عن محمد بن عمرو الإعیسیٰ،تفردبہ عبداللّٰہ بن أبی رومان ۲۴؎
اس روایت کی سند میں دو راوی علی بن سعید (م ۲۹۹ ھ) اور محمد بن عمرو (م ۱۴۵ ھ) آئمہ محدثین رحمہم اللہ کے ہاں ناقابل اعتماد ہیں ۔ہم ان دونوں رواۃ کے بارے میں آئمہ کا تبصرہ ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں :