کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 357
مرنے والے کو اس کے رشتے داروں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، اگرچہ میت کا اس میں کوئی عمل و دخل نہ ہو۔ اور اس مفہوم کو وہ قرآنی آیت ﴿لاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَأُخْریٰ ﴾ کے خلاف سمجھتی ہیں ، جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ہے کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش ہوئی: ((إن المیت یعذب ببعض بکاء أھلہ علیہ)) یعنی ’’مرنے والے کو اس کے رشتے داروں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے‘‘ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: وَھِلَ تعنی ابن عمر إنما مرالنبی صلي اللّٰه عليه وسلم علی قبر فقال ان صاحب ھذا لیعذاب وأھلہ یبکون علیہ ثم قرأت،﴿ لاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَأُخْریٰ﴾ ۲۱؎ ’’انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھول گئے ہیں ، اصل بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تو فرمایا اسے عذاب ہورہا ہے اور اس کے رشتے دار اس پر رو رہے ہیں اور قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:﴿ لاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَأُخْریٰ ﴾ یعنی ’’کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ دیکھئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے راوی حدیث کی واقعہ فہمی کی غلطی پرمواخذہ کیا ہے، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کرنے کی جرأت نہیں کی اور انہوں نے مفہوم حدیث کی اصلاح کی خاطر قرآنی آیت کو پیش کیا ہے، حدیث نبوی کو رد کرنے کے لئے نہیں ، جیسا کہ عام سمجھا جاتاہے۔ نوٹ: حدیث میں آتا ہے: ((إن المیت یعذب ببعض بکاء أھلہ علیہ)) ، اس پر اعتراض لازم آتا ہے کہ میت پر رونا تو آہی جاتا ہے، جیساکہ صحیح مسلم میں ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ غشی کی حالت میں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے اور آپ کو دیکھ کر دیگر لوگ بھی رونے لگے‘‘۔۲۲؎ ایسا رونا جب جائز ہے تو عذاب کیوں ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ دیا کہ اس ’رونے‘ سے مراد نوحہ والا رونا ہے جس میں بال اکھاڑے جائیں ، سر پر ہاتھ مارے جائیں ، سینہ کوبی کی جائے، بے صبری کے کلمات کہے جائیں ، واویلا اور چیخ و پکار کی جائے۔ یعنی ہر رونے پر عذاب نہیں ہوتا بلکہ رونے کی بعض صورتوں میں عذاب ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: (( إن المیت یعذب ببعض بکاء أھلہ علیہ)) ۲۳؎ ’’میت کو زندوں کے بعض قسم کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ المختصر مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں دیکھئے کہ اس طرح تمام دلائل جمع ہوجاتے ہیں اور کسی دلیل کا ترک لازم نہیں آتا، جبکہ قرآن اور حدیث کے ٹکراؤ کے طرزعمل سے دلائل میں عجیب انتشار اور خلفشار واقع ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انسان پریشان ہو کر صحت ثبوت کے باوجود بعض دلائل کو منسوخ یا مرجوح قرار دے کر انہیں چھوڑ دینے کی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ 3۔ اِستدراک عائشہ علی الصحابہ کے سلسلہ میں ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ جو آدمی وتر کی نماز نہ پڑھے تو اس کی کوئی نماز قبول نہیں ، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو آدمی پانچ فرض نمازوں کی تمام شرائط کے ساتھ پابندی کرے گا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ حق ہے کہ وہ اس کو عذاب نہ دے۔‘‘