کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 356
سے پہلے اسی نے رکھی ہے۔‘‘ 5۔ بعض علماء نے حدیث عمر رضی اللہ عنہ کو حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جمع کرنے کی صورت یہ اختیار کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث سے وہی مفہوم مراد لیا ہے جو انہیں معلوم حدیث کے موافق ہے۔ چونکہ انہیں وہی ارشاد اور حدیث معلوم تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودیہ عورت کے متعلق فرمائی تھی۔ ا س لئے ان کے ہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث سے مراد بھی کافر میت ہے جسے نوحہ کرنے والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ جیسا کہ محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ (م ۱۳۲۹ ھ)فرماتے ہیں : إنکار عائشۃ لعدم بلوغ الخبرلہا من وجہ أخر فحملت الخبر علی الخبر المعلوم عندھا بواسطۃ ماظھر لہا من استبعادان یعذب أحد بذنب أخروقد قال تعالیٰ ولا تزروازرۃ وزرأخریٰ، لکن الحدیث ثابت بوجوہ کثیرۃ ۲۰؎ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا انکار صرف اس لئے ہے کہ انہیں دوسرے طریق سے یہ حدیث نہیں پہنچی، لہٰذا انہوں نے اس حدیث کو اپنے ہاں معلوم حدیث پر قیاس کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ میت کو دوسروں کے جرم کی بناء پر عذاب نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کوئی جان دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گی، حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی بہت سی اسانید سے مروی اور صحیح ثابت ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اِستدراک مومن اورکافر کے مابین تفریق کی جہت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں انہوں نے فرمایا تھاکہ یہ حدیث مومن کے بارے میں نہیں ہے بلکہ کافر کے بار ے میں ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مومن کے بارے میں بیان کرنے سے اگر یہ روایت ﴿ولاتزرو وزرۃ وزر اخریٰ﴾ کے خلاف ہوجاتی ہے تو یہی حدیث کافر کے بارے میں بیان کرنے سے آخر اس آیت قرآنی کے خلاف کیوں نہیں ہوتی؟ حالانکہ نفس مسئلہ اور محل مسئلہ ایک ہی ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے عمل کا مکلف نہیں ہے کہ اس کو عذاب میں مبتلاکیا جائے۔ مراد یہ ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی نامہ اعمال بند کردیا جاتا ہے ۔اگر مومن کے اعمال اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہوگئے ہیں تو کافر کے اعمال کیا جاری رہتے ہیں ؟ ہماری دانست کے مطابق قرآن وحدیث کے تعارض کا جواشکال یا اعتراض حدیث عمر رضی اللہ عنہ پر وارد ہوتا ہے۔ بالکل وہی اعتراض یا اشکال اِستدراک عائشہ رضی اللہ عنہا پر بھی وارد ہوتا ہے کیونکہ اصل مسئلہ اعمال کی منتقلی کا ہے، ناکہ کافر اور مومن کے فرق کا۔ معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِستدراک کا مقصد قرآن کا حدیث کے ساتھ تعارض کو بیان کرنا قطعا نہیں تھا بلکہ ان کا مقصود اس خرابی کی ظاہر ی صورت کی طرف اشارہ کرنا تھا جو ایک عام مسلمان کے ذہن میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سننے کے فوراً بعد، آیت قرآنی کے تعارض کے سلسلے میں پیدا ہو سکتی تھی۔ حدیث اپنی جگہ مسلم ہے جس کا قرآن سے کوئی تعارض نہیں ہے، لیکن اس حدیث کے بیان میں جمع وتطبیق کی تمام ممکنہ صورتیں بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے تاکہ معترضین کے اشکال کا جواب دیا جا سکے ۔یہی وجہ ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے نہ تو اختلاف فہم کی بنیاد پرحدیث کو رد کیا اور نہ ہی آیت قرآنی کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کیا۔ اگر بات رد و انکا ر کی ہوتی تو پس منظر میں جاکر اس حدیث کا شان ورود بیان کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی اور یہ انکار اور رد تو ویسے بھی ممکن تھا۔ المختصر اس روایت کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کو نہ تو خلاف قرآن کہا ہے اور نہ ہی اسے درایت کے منافی سمجھ کر رد کیاہے بلکہ انہوں نے اس شخص کو غلطی اور نسیان کی طرف منسوب کیا ہے جو اس سے یہ سمجھتا ہے کہ