کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 355
تربیت کرنا اس کی شرعی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اپنی اس ذمہ داری کی بجا آوری میں کسی سستی کا مرتکب ہوتا ہے اور ان کو منع نہیں کرتا تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے، جس پر اسے سزا ملنا کوئی اچنبھے والی بات نہیں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یٰأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا﴾ ۱۷؎ جب میت کے اہل و عیال کی رونے پیٹنے کی عادت ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں ﴿قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا﴾ پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ کے مطابق انہیں اس منکر اور برائی سے روکے اور انہیں نوحہ کے حرام ہونے کے بارے میں آگاہ کرے، لیکن اگر وہ نہی عن المنکرکا یہ فریضہ ادا نہیں کرتا تواسے اپنی اس کوتاہی پرعذاب ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح سے قرآن کریم کی آیت اور حدیث نبویہ میں کوئی منافاۃ نہ رہی۔ 4۔ اگر میت نہ تو اپنی زندگی میں نوحہ کنانی کرتی تھی اور نہ اس کے اہل وعیال اس فعل قبیح کے مرتکب ہوتے تھے اور نہ ہی اس نے اپنے مرنے کے بعد گھر والوں کو رونے کی وصیت کی تھی تو اس صورت میں میت کو گھر والوں کے رونے دھونے سے قطعا عذاب نہیں ہوگا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مراد بھی یہی ہے اور انہوں نے اسی چوتھی صورت میں قرآن کریم اور حدیث نبوی کے تعارض کی نفی فرمائی ہے کہ جب میت کے اَحوال مذکورہ تین صورتوں کے علاوہ ہوں تو اس کو میت کے اہل وعیال کے رونے پر قطعا عذاب نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اگر کوئی اور صورت ہو تو ان میں میت کو عذاب دیے جانے کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نفی نہیں کی ہے۔ اس کی مزید وضاحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے: ((إن المیت یعذب ببعض بکاء أھلہ علیہ)) ۱۸؎ ’’ میت کو زندوں کے بعض قسم کے رونے سے عذاب ہوتا ہی۔‘‘ اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ)کی تبویب میں ان تمام دلائل کو جمع کردیا گیا ہے، جن سے حدیث مذکور کے خلاف قرآن ہونے کا دعویٰ باطل ہوجاتاہے۔ وہ فرماتے ہیں : باب قول النبی صلي اللّٰه عليه وسلم یعذب المیت ببعض بکاء أھلہ علیہ إذا کان النوح من سنتہ،لقول اللّٰہ تعالیٰ،قوا أنفسکم وأھلیکم ناراً، وقال النبی صلي اللّٰه عليه وسلم:کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ فاذ الم یکن من سنتہٖ فھو کما قالت عائشۃ ﴿لاتزر وازرۃ وزرأخریٰ﴾ وھو کقولہ ﴿وإن تدع مثقلۃ الی حملہا لا یحمل منہ شیئ﴾ وما یرخص من البکاء من غیر نوح، و قال النبی صلي اللّٰه عليه وسلم لا تقتل نفس ظلما إلاکان علی ابن ادم الأول کفل من دمہا، وذلک لأنہ أول من سن القتل ۱۹؎ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میت پر اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے اسے عذاب ہوتا ہے، یہ تب ہے کہ جبکہ رو نا اور ماتم کرنا اس کے اہل کی رسم ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو برے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور اس سے ا س کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اگر رونا پیٹنا اس کے خاندان کی عادت نہ ہو اور اچانک اس پر کوئی روئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس آیت سے دلیل لینا صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اسی طرح فرمایا:اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے بلائے گی تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور بغیر نوحہ کرنے کے اور چلائے پیٹے بغیر رونا درست ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے قابیل پر بھی ا سکا وبال پڑتا ہے، کیونکہ ناحق قتل کرنے کی بنیاد سب