کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 354
جواب فقہائے احناف کے ہاں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ دو مختلف احادیث میں ٹکراؤ کی صورت میں نسخ یا ترجیح کے ذریعے سے ایک حدیث کو قبول اور دوسری کو رد کردیا جائے گا۔۱۴؎ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس اصول کی بنیاد پر یہاں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو راجح قرار دے کر قبول اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو مرجوح قرار دے کر چھوڑدیا ہے۔ لیکن ان کے اس طرز عمل سے دلائل میں عجیب قسم کا تعارض پیدا ہوجاتا ہے کہ ایک شخص پریشان ہو کر حدیث کریمہ کے وحی ہونے کے مسلمہ عقیدہ رکھنے کے باوجود محض اپنے ذوق کی بنا پر بعض احادیث کو مرجوح یا منسوخ قرار دیتے ہوئے انہیں چھوڑ دینے کی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بیان کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرح عادل وضابط ہیں اور وہ تعداد میں بھی زیادہ ہیں ۔ جیسا کہ اِمام ترمذی رحمہ اللہ (م ۲۷۹ ھ)نے اس حدیث کے تحت کہا ہے: وفی الباب عن عمرو علی و ابی موسیٰ و قیس بن عاصم و ابی ہریرۃ و جنادۃ بن مالک وانس وأم عطیۃ و سمرۃ و ابی مالک الاشعری ۱۵؎ ان کے علاوہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔ علمائے احناف کے بالمقابل جمہور اہل علم کے ہاں مختلف احادیث میں تعارض کو رفع کرنے کے لیے اولین کوشش جمع وتطبیق ہی کی کی جانی چاہیے کیونکہ دو متضاد ادلہ کو جمع کرکے یک جا کرنااس سے کہیں بہتر ہے کہ بعض احادیث کو چھوڑ دیا جائے اور بعض پر عمل کرلیا جائے۔ لہٰذا ہم ذیل میں باہم متضاد روایات اور قرآن وسنت کے ظاہر تعارض کو جمہور فقہاء کے جمع وتطبیق کے راجح قول کے مطابق پیش کردیتے ہیں ، جس سے یہ ظاہری تعارض رفع ہوجائے گا۔ یہاں ہم تطبیق کی پانچ مختلف صورتیں بیان کر رہے ہیں ۔ 1۔ تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ میت اپنی عہد ِحیات میں دیگر افراد کی اموات پر آہ وبکا اور نالہ وشیون کا کام کرتی رہی اور اس کے اس طرز عمل سے اس کے گھر والے متاثر ہوئے۔ اب خود اس کے مرنے کے بعد وہ لوگ وہی کام کررہے ہیں جو یہ اپنی زندگی میں کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ((من سن سنۃ حسنۃ فعلیہ أجرہا وأجر من عمل بہا إلی یوم القیامۃ ومن سن سنۃ سیئۃ فعلیہ وزرہا وزر من عمل بہا إلی یوم القیامۃ)) ۱۶؎ مذکورہ حدیث سے اس بات کی صراحت ہوتی ہے کہ غلط کام کی ابتدا کرنے والے شخص کو اس کی موت کے بعد بھی غلط کام کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ اسی کی تائید ہابیل اور قابیل کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ قیامت تک ہونے والے ناحق قتل کے گنا ہوں میں علیہ السلام کا بیٹا قابیل بھی برابر کا شریک ہے کیونکہ اس نے اس فعل بد کی ابتدا کی تھی۔ لہٰذا قرآن اور حدیث میں کوئی منافاۃ نہ رہی۔ 2۔ اسی طرح اگر وہ زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے مرنے پر رشتہ داروں کو خوب رونے پیٹنے کی وصیت کر جائے، تب بھی عذاب ہوتا ہے۔ کیونکہ وصیت کرجانا یا ان کی عادت کا علم ہونے کے باو جود انہیں نہ روکنا اس کا اپنا جرم ہے جس پر اسے سزا ہوتی ہے کیونکہ نوحہ کی وصیت کرکے خود اس نے ایک برائی کی بنیاد رکھی۔ 3۔ اس کے اہل وعیال اس کی زندگی میں دیگر افراد کے مرنے پرآہ وبکا اور نالہ وشیون کیا کرتے تھے لیکن ان کے اس فعل قبیح پر علم ہونے کے باوجود یہ شخص ان کو منع نہیں کرتا تھا، حالانکہ شریعت اسلامیہ کی رو سے یہ شخص مسؤل ہے اور بال بچوں کی اسلامی نہج پر