کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 353
﴿إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ المَوْتَیِ﴾ فقال: والذی نفسی بیدہ ماأنتم بأسمع منہم ولکنہم لا یستطیعون ان یجیبوا ۱۱؎ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مرداروں کو تین دن تک چھوڑے رکھا، اس کے بعد ان کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا اے امیہ، اے ابوجہل، اے عتبہ اور شیبہ ، ربیعہ کے بیٹو! تم سے تمہارے رب نے جو وعدے کئے تھے وہ سچ نکلے یا نہیں ؟ مجھ سے تو میرے رب نے جو کچھ فرمایا برحق ثابت ہوا، جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تین دن کے بعد انہیں آواز دے کربلا رہے ہیں !! کیا یہ سنتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتیٰ﴾ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو نہیں سنا سکتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات باری تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ تمہاری طرح سن رہے ہیں لیکن یہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ قابل غور بات یہ ہے کہنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کے پیش ہونے پر اپنی حدیث سے رجوع نہیں فرمایاکیونکہ یہ آیت حدیث مذکورکے خلاف نہیں ہے، لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت کی بنا پر حدیث نبوی کاانکار کیونکر کرسکتی ہیں ؟ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلیب بدر پر کھڑے ہو کر مقتول کافروں کے ساتھ خطاب کرنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ان تک پہنچا رہے تھے اور وہ منکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کو سن کر ذہنی اذیت اٹھا رہے اور اپنے انکار پر نادم ہورہے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال اتکلم قوما موتیٰ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی آیت ﴿إن اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمَعٍ مَّنْ فِیْ الْقُبُوْرِ﴾ ۱۲؎ یعنی ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تو قبروں میں جانے والوں کو نہیں سنا سکتے لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے آپ کی بات سنا سکتا ہے‘‘ سے بھی اسے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ غرضیکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے جس چیز کی نفی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے خود حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا اثبات ہورہا ہے۔ 2۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ روایت جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے پیش کی گئی کہ((إن المیت لیعذب ببکاء أھلہ علیہ)) تو فرمایا: یرحم اللّٰہ عُمَرَ،لا واللّٰہ ما حدث رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم إن اللّٰہ یعذب المؤمن ببکاء أحد ولکن قال إن اللّٰہ یزید الکافر عذابا ببکاء أہلہ علیہ قال وقالت عائشۃ حسبکم القرآن: ﴿ وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَأُخْریٰ ﴾ ۱۳؎ ’’ اللہ تعالیٰ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، بخدا رسول اللہ نے یہ نہیں فرمایا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مومن کو کسی کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات مومن کے بجائے کافر کے بارے میں فرمائی ہوگی۔ پھر فرمایا: ’’تمہیں قرآن کافی ہے۔قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَأُخْریٰ ﴾ کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔‘‘ اعتراض حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اِستدراک سے قرآن وسنت میں بظاہر جو تعارض نظر آتا ہے اس سے بعض علمائے احناف نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ حدیث میں میت کو اس کے اہل وعیال کی نوحہ کنانی سے مبتلائے عذاب ہونے کی وعید سنائی گئی ہے، آخر میت کو اس کے اہل وعیال کے عمل کی وجہ سے عذاب کیوں کر ہوسکتا ہے۔ حالانکہ از روئے آیت قرآنی ﴿ وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَأُخْریٰ ﴾ کی روشنی میں اس کی نفی ہوتی ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ میت کو نوحہ گری اور گریہ زاری سے عذاب نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن وسنت کا یہی وہ تعارض ہے جس کی طرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نشاندہی فرمائی اور اس جانب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کیا ہے۔