کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 352
اور اس طرح ایک حدیث کو رد کرنے کا جواز نکالتے ہیں حالانکہ لفظوں کا یہ اختلاف کلام نبوت کے اعجاز کی دلیل ہے جس سے اہل بصیرت کو یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ احادیث فی الواقعہ زبان نبوت سے ہی صادر ہوسکتی ہیں ، جن میں مقتضائے حال کی مطابقت کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے خطاب کے وقت موقع پر موجود تھے ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سننے کا لفظ استعمال کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نہ مخاطب تھے اور نہ وہ سن رہے تھے وہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس علم کا لفظ ذکر کیا ہے۔ قلیب بدر کے بارے میں حدیث عمر رضی اللہ عنہ پر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے منہج اِستدراک اور ان کے مابین اختلافِ تنوع کی تطبیق وتوفیق آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں ۔ اِستدراک عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہ توصحیح سند کے ساتھ ثابت ہونے والی روایت کا انکا ر لازم آتا ہے اور نہ ہی اس کے خلافِ قرآن ہونے کی دلیل ہاتھ آتی ہے۔ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کی ایسی توجیہہ بیان فرمائی ہے کہ جس سے بظاہر نظر آنے والا تعارض ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔ اگر ان کا مقصد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد قرآن کے خلاف ثابت کرنا ہوتا تو ہمارے خیال میں جو اعتراض سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قرآنی آیت کی روشنی میں حدیث ِعمر رضی اللہ عنہ پر کررہی ہیں بالکل وہی اعتراض ان کی توجیہہ پربھی صادق آتا، کیونکہ دونوں روایتوں کا باہمی اختلاف لم یسمعوا اور لم یعلموا کے الفاظ میں ہے ۔حدیث مبارکہ میں لم یسمعوا کے الفاظ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے، جبکہ لم یعلموا کے الفاظ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نقل فرمائے ہیں ،لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ان ا لفاظ سے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے خطاب پر خود انہی کی طرف سے کیے جانے والے اعتراض کا تسلی بخش جواب فراہم نہیں ہوتا ہے، کیونکہ اصل سوال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے مردوں کے خطاب پر تھا، نہ کہ قلیب بدر کی موجودہ حالت پر۔ مزید برآں اس کی توجیہہ لم یسمعوا سے کریں یا لم یعلموا سے، سوال اپنی جگہ بہرحال برقرار رہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اگر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قرآن کے حدیث سے تعارض کی نشاندہی کرنا چاہتی تھیں تو وہ تعارض خود ان کے بیان کردہ الفاظ میں پایا جاتا ہے۔ کیا اس قدر باریک بین نگاہ رکھنے والی ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی روایت کے الفاظ کا خلاف قرآن ہونا سمجھ نہ آیا۔ نیز حقیقت بھی یہی ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقصد آئندہ دور میں کسی بھی وقت سر اٹھانے والے اس فتنہ کی سرکوبی کرنا تھاکہ حدیث اور قرآن میں تعارض بھی ہوسکتا ہے،بلکہ جمع وتطبیق کے ذریعے سے اس کی کئی پہلوؤں سے قابل قبول توجیہہ کی جاسکتی ہے ۔جس کی بنیاد پر کسی ایک دلیل کو مرجوح یا منسوخ قرار دے کر ترک کرنے کی بجائے دونوں روایتوں پر عمل کیا جاسکے۔ مسئلہ سماع موتی جہاں تک ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا سماع موتی کے باب میں آیت قرآنی ﴿اِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ کو پیش کرنے کا تعلق ہے تو یہ بھی انکار حدیث کی غرض سے نہیں ہے، بلکہ اس حدیث کی وجہ سے یہ آیت پیش کی ہے جس کا انہیں علم تھا اور وہ لقد علموا کے الفاظ پرمشتمل تھی۔ورنہ یہی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے فرمان کے خلاف نہیں سمجھا تھا، جیساکہ مسند احمد میں ہے: أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ترک قتلی بدر ثلاثۃ أیام حتی جیفوا ثم أتاھم فقام علیہم فقال یا أمیۃ بن خلف یا أبا جہل بن ہشام یاعتبۃ بن ربیعۃ یا شیبۃ بن ربیعۃ ہل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا فانی قد وجدت ما وعدنی ربی حقا قال فسمع عمر صوتہ فقال یارسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم أتنا دیھم بعد ثلاث وھل یسمعون یقول اللّٰہ عزوجل: