کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 351
ایک اہم سوال
اب سوال یہ ہے کہ قلیب بدر کے واقعہ کو ذکرکرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں لفظوں کا اختلاف کیوں پایا جاتا ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں لقد سمعوا کے لفظ ہیں کہ اہل قلیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام سن لی ہے۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی واقعہ سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقد علموا کا لفظ نقل کیا ہے یعنی وہ جان چکے ہیں کہ میں ان سے جو کہتا تھا وہ حق ہے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی مخالفت کیوں کی ہے؟
جواب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں جو میدان بدر میں اس وقت موجود تھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کافروں کو کنویں میں ڈالنے کاحکم دیا تھا اور آپ نے اس کے کنارے پر کھڑے ہو کر ان سے کلام کی تھی اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی مشیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب سن رہے تھے، لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مردوں سے مخاطب ہورہے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ تمہاری طرح سن رہے ہیں ، اگرچہ جواب دینے پر قادر نہیں ہیں ۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مقام بدر میں موجود نہیں تھیں ، انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ اس وقت سنا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدان بدر کو چھوڑ کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ مدینہ منورہ جاکر نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولین بدر سے خطاب کیا اور نہ ہی اس وقت ان کے سننے کا سوال پیدا ہوسکتا ہے، ہاں البتہ وہ اس وقت عالم برزخ میں پہنچ جانے کی بناء پر یہ جان چکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ تعالیٰ کے جو وعدے پہنچائے تھے وہ سب برحق ہیں ، لہٰذا مدینہ منورہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ((لقد علموا)) کا لفظ ہی اخذ کیا ہے۔ اس وقت لقد سمعوایا یسمعون کا لفظ لانا بے محل تھا کیونکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے خطاب نہیں فرما رہے تھے۔ بنا بریں ہر صحابی نے نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے وہی کچھ ذکر کیا ہے جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی الفاظ نقل کیے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینہ منورہ میں سنے ہیں اور وہ لقد علموا یا لیعلمون ہیں ، جبکہ لقد سمعوا یا یسمعون کے الفاظ باوجودیکہ صحیح ثابت ہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی نفی اپنے عدم علم کی وجہ سے کی ہے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل قلیب سے خطاب کے وقت موقع پر موجودنہیں تھیں ۔
تعارض کے تحَقُّق کی شروط
حضرت عمر رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سماعت حدیث کے مکان کے مختلف ہونے کی وجہ سے ایک کی حدیث کا دوسرے کی حدیث سے کوئی تعارض اور تناقض نہیں ہے۔کیونکہ دو چیزوں میں تناقض تب متحقق ہوتا ہے جب کہ ان دونوں میں آٹھ چیزوں میں یگانگت پائی جائے۔ جنہیں شاعر نے یوں اپنے ایک شعر میں جمع کردیاہے:
درتناقض ہشت وحدت شرط دان وحدت موضوع ومحمول ومکان
وحدت شرط و اضافت جزء و کل قوت و فعل ست در آخر زمان
جبکہ دونوں احادیث میں کوئی تعارض ہی نہیں تو ایک کودوسری سے ٹکرا کر چھوڑنے کا سوا ل پیدا نہیں ہوتا، بلکہ دونوں احادیث اپنے اپنے مقام پر صحیح اور ثابت ہیں ۔ دیکھئے: بعض حضرات تو اس لفظی اختلاف کو انکار حدیث کے لئے ایک بہانے کے طور پر پیش کرتے ہیں