کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 350
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ روایت سن کر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں بلکہ یہ کہا ہوگا کہ اس وقت یہ لوگ جان چکے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ حق ہے۔ پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں:
﴿اِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتٰی ﴾
’’بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کونہیں سنا سکتے ‘‘
﴿وَمَا اَنْتَ بِمُسْمَعٍ مَّنْ فِیْ الْقُبُوْرِ﴾
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نہیں سنا سکتے جوقبروں میں پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
اعتراض
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس اِستدراک کی وجہ سے بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ انہوں نے دیگر صحابہ کی بیان کردہ حدیث کو قرآن کریم کی آیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کردیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی حدیث کا متن قرآن کریم کے صریح خلاف آرہا ہو تو اس روایت کی سند دیکھنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں رہتی بلکہ محض خلاف قرآن ہونے ہی کی وجہ سے وہ رد کیے جانے کے قابل ہے، کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے راوی ِحدیث پر کوئی بحث نہیں کی اور ان پر بحث ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ صحابہ تمام کے تمام عادل ہیں ۔ لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ تحقیق حدیث میں اصول درایت کا استعمال ایک مسلمہ امر ہے۔
جواب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مقابلہ میں پیش کرنے والوں کے پیش نظر اگریہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ قلیب بدر کے مقتولین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب سنتے نہیں تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ان کے سننے کا اثبات ہوتا ہے جس کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نفی ہوتی ہے، تو یہ بات درست نہیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں جن سے اہل قلیب کا سماع ثابت ہے۔ الفاظ حدیث ملاحظہ ہوں:
عن عائشۃ قالت أمر رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم بالقتلی ان یطر حوا فی القلیب فطر حوافیہ إلا ماکان من أمیۃ بن خلف فانہ انتفخ فی درعہ فملا ھا فذھبوا یحرکوہ فتزایل فأقروہ وألقوا علیہ ماغیبہ من التراب والحجارۃ فلما ألقاھم فی القلیب وقف علیہم رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فقال:(( یا أھل القلیب ھل وجدتم ما وعد ربکم حقا فانی قدوجدت ماوعدنی ربی حقا قال فقال لہ أصحابہ یارسول اللّٰہ أتکلم قوما موتیٰ قال فقال لہم لقد علموا ان ماوعدتہم حق قالب عائشۃ والناس یقولون لقد سمعوا ماقلت لہم و انما قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم لقد علموا)) ۱۰؎
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے کافر مقتولوں کو قلیب بدر (بدر کے ایک کنویں ) میں پھینکنے کا حکم صادر فرمایا لہٰذا ان سب کو کنویں میں پھینک دیا گیا، لیکن امیہ بن خلف کی لاش چونکہ اپنی زرہ میں پھول چکی تھی اس کو اٹھا کر پھینکنے لگے تو اعضاء منشتر ہوگئے، تو اسے وہیں چھوڑ کر اوپر مٹی اور پتھر ڈال کر اسے چھپا دیا گیا، ان کافروں کی لاشوں کو کنویں میں ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پرکھڑے ہوگئے اور کہا، اے کنویں والو! تم سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا وہ تم نے سچ پایا ہے یا نہیں ؟ مجھ سے تو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا وہ سچ ہوچکا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گذارش کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مرنے والوں سے گفتگو کررہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! وہ جان گئے ہیں کہ میں نے انہیں سچا وعدہ دیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں دوسرے لوگ تو یہاں سمعوا کا لفظ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان سے جو کہا ہے انہوں نے سن لیا ہے۔، لیکن مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیعلموا کہا تھا کہ وہ جان چکے ہیں ۔