کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 35
حیثیت رکھتی ہے ۔۲۳؎ ’تعدیل‘ کی ایک مثال صحیح بخاری میں موجود حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا طویل قصہ ہے جس کا خلاصہ یوں ہے کہ ’’جب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے غزوہ فتح مکہ کا ارادہ فرمایا تو حاطب رضی اللہ عنہ نے کفار ِمکہ کو اس کے متعلق آگاہ کرنے کے لیے ایک عورت کو خط دے کر بھیج دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا اور وہ اس سے خط چھین کر لے آئے اور اسے آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے پڑھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے حاطب رضی اللہ عنہ ! یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا ’’ اے اللہ کے رسول ! میرے بارے میں جلدی مت کیجئے ، حقیقت یہ ہے کہ میں مہاجرین کی طرح قریش کے خاندان سے نہیں ہوں ، صرف ان کا حلیف بن کر ان سے جڑ گیا ہوں جبکہ دوسرے مہاجرین کے وہاں اعزاء واقرباء ہیں جو ان کے گھر بار اورمال اَسباب کی نگرانی کرتے ہیں ۔ میں تو (اس خط کے ذریعے) صرف یہ چاہتا تھا کہ ان پر کوئی ایسا احسان کر دوں جس کی وجہ سے وہ میرے کنبہ والوں کو تنگ نہ کریں ۔ میں نے یہ کام دین سے پھر کر نہیں کیا اور نہ ہی قبولِ اسلام کے بعد میرے دل میں کفر کی حمایت کا جذبہ ہے ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ (( أما انہ قد صدقکم)) ۲۴؎ ’’واقعی انہوں نے تمہارے سامنے سچی بات کہہ دی ہے ۔ ‘‘؎ یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات ’جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگوں کی جرح اور بعض کی تعدیل واظہار ِصداقت کا ذکر ہے ‘ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ نقد ِحدیث کی عمارت کی پہلی اینٹ خود رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ہی رکھ دی تھی اور آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فنِ جرح وتعدیل کے ابتدائی خطوط کی نشاندہی کر کے ایسے اصول وقواعد کی ضرورت کی طرف اشارہ کر دیا تھا کہ جن کے ذریعے صحیح احادیث کو ضعیف احادیث سے جدا کیا جا سکے ، سچ اور جھوٹ میں تمیز کی جا سکے اور ثقہ کی ثقاہت اور ضعیف کا ضعف بیان کیا جا سکے ۔ اِسناد ومتن کی تحقیق کا اِرتقاء اور نشوونما.... عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں قرآن کریم کے بعد حدیث وسنت کی جو اہمیت اور مقام ومرتبہ ہے وہ ابتدائے اسلام سے ہی مسلم تھا ۔ مزید برآں حفاظت ِ حدیث کے متعلق آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے فرامین (جیسے سنی سنائی بات آگے بیان کرنے کی ممانعت ، جھوٹی حدیث بیان کرنے پر جہنم کی وعید وغیرہ) بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پیش نظر تھے اس لیے وہ قبولِ حدیث کے سلسلے میں شدید احتیاط کا رویہ اپناتے تھے ۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم تو ایسے تھے کہ طویل عرصہ تک حدیث بیان کرنے سے صرف اس خدشے سے گریزاں رہتے کہ کہیں وہ کوئی خلاف ِواقعہ بات بیان کر کے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی بیان کردہ وعید کے مستحق نہ بن جائیں ۔۲۵؎ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی احتیاط کا بھی یہی سبب تھا ۔ اسی لیے ان سے بھی جرح وتعدیل۲۶؎ اور روایات کی صحت وضعف کے متعلق تحقیق وتفتیش ثابت ہے۔۲۷؎ قبولِ حدیث کے سلسلے میں خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی احتیاط وتفتیش کی چند اَمثلہ حسب ذیل ہیں: ٭ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ٭ امام ذہبی رحمہ اللہ (م ۷۴۸ ھ)نے نقل فرمایاہے کہ قبولِ حدیث کے سلسلے میں سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے احتیاط فرمائی ۔ ٭ امام ابن شہاب رحمہ اللہ (م ۱۲۴ ھ) نے قبیصہ بن ذویب رحمہ اللہ (م ۸۶ ھ) سے روایت کی ہے کہ