کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 349
٭ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)بھی لکھتے ہیں کہ حدیث میں ٹکراؤ ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فن حدیث کی گہری آشنائی حاصل ہوجائے۔ چنانچہ فرماتے ہیں : ولیس لہ دواء إلا اتقان ہذا الفن والرسوخ فیہ ۹؎ ’’اس کا علاج اس کے سوی اور کوئی نہیں کہ فنی مہارت اور علمی رسوخ حاصل ہو۔‘‘ اِستدراکات ِصحابہ رضی اللہ عنہم اورشبہات کا جائزہ بعض حضرات اس بات پر زور دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عقل عام اور قرآن کریم کو حدیث کے رد وقبول کا معیار بنا رکھا تھا۔ اپنے دعوی کی تصدیق کے لیے یہ حضرات چند امثلہ بھی بطور ثبوت پیش کرتے ہیں ۔وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے حوالے سے یہ مثالیں پیش کی گئی ہیں ، ان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کو نمایاں طور پر ذکر کیا جاتاہے اور ان کی نسبت سے مخالف قرآن یادرایت کے منافی حدیث کو رد کردینے کے معیار کو ثابت کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے خیال میں ان کا یہ تصور فہم سقیم اور عقل ناقص کا شاخسانہ ہے کیونکہ یہ اصول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پیش نظر نہیں تھے۔لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انہی صحابہ رضی اللہ عنہم کے اِستدراکات کو ہم بطور مثال اس فصل میں پیش کر دیں تاکہ اس بارے میں در آنے والی ان تمام غلط فہمیوں اور شبہات کا ازالہ کردیا جائے جن کی وجہ سے اس غیر فطری اور غیر عقلی قبول ِحدیث کے معیارِ درایت کی نسبت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کی جارہی ہے۔ درایت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ سے چندامثلہ اور ان کا جائزہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کے ہاں قبول ِروایت کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ اور اصول شرع کے خلاف نہ ہو، چنانچہ انہوں نے متعدد مواقع پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ روایتوں کو محض اس بنا پر رد کردیا کہ وہ ان کے نزدیک اس معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں ۔ اس ضمن میں جن چند مثالوں کو عام طور پر پیش کیا جاتا ہے ان کا ماخذ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ھ)کی کتاب عین الإصابہ فیما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ ہے۔ یہاں ہم رسالہ عین الاصابہ میں سے اس سلسلہ کی چند معروف روایات کو بطور مثال نقل کررہے ہیں : 1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جب ان کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر مشرکین کی لاشوں سے، جو ایک کنویں میں پھینک دی گئی تھیں ، مخاطب ہو کر کہا: ((فھل وجدتم ما وعد ربکم حقا)) ’’تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا کیا تمہیں اس کا حق ہونا معلوم ہوگیا ہے؟ ‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ مردوں سے مخاطب ہورہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ما أنتم بأسمع منہم ولکن لا یجیبون)) ’’ان کے سننے کی صلاحیت تم سے کم نہیں ہے بس اتنی بات ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘