کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 348
ہوتا ہے، فائدہ اٹھاتا ہوں اور جب کوئی دوسرا شخص مجھے آپ کی حدیث بتاتا ہے تو ا س کے ثبوت کے لئے بتانے والے سے قسم لیتاہوں ، جب وہ قسم اٹھاکر بیان کرے کہ یقینی طور پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے تو اس کی تصدیق کرتا ہوں ۔‘‘ ۶؎
ان دلائل سے خلفائے راشدین صلی اللہ علیہ وسلم کا معیار حدیث کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ ان کے نزدیک صحیح حدیث کو جاننے کے لئے زیادہ تر انحصار اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجانے پر ہوتا تھا، اس کے بعد وہ ان احادیث کورد کرنے کے لئے انہیں عقلی کسوٹیوں پر پرکھنے کے قائل نہیں تھے کیونکہ انہیں اس بات کا پورا یقین و ایمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ قول و فعل کو سمجھنے میں انسانی عقل کا قصور تو ہوسکتا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہرگز عقل سلیم کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ یہی انداز دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔
٭ سند کی تحقیق کے اہتمام کا آغاز اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہوا، لیکن یہ کبھی نہیں ہواکہ کسی صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ حدیث کو درایت یا قرآن کی مخالفت کے دعویٰ سے رد کردیاہو کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر ایمان تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرآن کریم یا درایت کے خلاف ہرگز نہیں ہوسکتی۔ ہاں البتہ ان کی طرف سے راوی حدیث کی تحمل روایت میں کسی غلط فہمی اور شبہ کا ازالہ ہوسکتا ہے، لیکن حدیث نبوی کو مخالفت قرآن و د رایت کی بنا پر رد کردینے کے معیار سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہرگز متعارف نہیں تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت کوئی بھی دو صحیح احادیث نہ باہم معارض ہوسکتی ہیں اور نہ ہی قرآن کریم سے احادیث صحیحہ کا تعارض ممکن ہے۔
٭ اِمام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (م ۳۱۱ ھ) فرماتے ہیں:
لا أعرف أنہ روی عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم حدیثان بإسنادین صحیحین، متضادان فمن کان عندہ فلیأت بہ حتی أؤلّف بینہما ۷؎
’’میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسانید سے منقول دو حدیثیں بھی ایسی نہیں ہیں جو مفہوم کے اعتبار سے متعارض اور باہم مخالف ہوں ، اگر کسی شخص کے علم میں ایسی متضاد اور متعارض احادیث ہیں تو میرے پاس لائے میں ان میں مطابقت اور موافقت ظاہر کروں گا۔ ‘‘
ان کا یہ قول اس بناء پر ہے کہ جب دو حدیثیں صحیح سند سے ثابت ہوجائیں تو اپنے ثبوت کے اعتبار سے قطعی ہو جاتی ہیں اور ان میں اختلاف وتضاد نا ممکن ہے۔ اس لئے محدثین خصوصاً ابن قتیبہ رحمہ اللہ (م ۲۷۶ ھ)، شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ)اور دوسرے کثیر محدثین نے مشکل الآثار اور مشکل الحدیث وغیرہ کے عنوان سے اس قسم کی تمام اخبار کا بڑا ہی عمدہ حل پیش کیا ہے۔
٭ اِمام دارمی رحمہ اللہ (م ۲۵۵ ھ) اپنی سنن کے شروع میں یعلی بن حکیم رحمہ اللہ (م ۱۲۰ ھ) کے طریق سے سعید بن جبیر رحمہ اللہ (م ۹۵ھ)سے نقل فرماتے ہیں کہ’’ ان سے کسی نے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے حدیث سے بتایا، سائل نے کہا کہ یہ تو قرآن کریم کے خلاف ہے۔ تو انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مخالفت کیلئے تشریف لائے تھے‘‘۔
مختلف احادیث میں ٹکراؤ عام طور پر انہی لوگوں کو محسوس ہوتا ہے جو علم الحدیث سے ناواقف اور اجنبی ہوتے ہیں ۔
٭ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) فرماتے ہیں :
ولا یعرف ذلک إلا النقاد ۸؎
’’اس کی معرفت نقد حدیث کے ماہر ہی کو حاصل ہوتی ہے۔‘‘