کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 34
4۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: (( لا تکذّبوا علی فانہ من یکذب علی یلج النار)) ۱۷؎ ’’مجھ پر جھوٹ مت باندھو ، یقینا جو مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ آگ میں داخل ہو گا ۔ ‘‘ 5۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : ((حدّثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج وحدّثوا عنی ولا تکذبوا علی)) ۱۸؎ ’’بنی اسرائیل سے حدیث بیان کرو ، اس میں کوئی حرج نہیں اور مجھ سے حدیث بیان کرو اور مجھ پر جھوٹ نہ باندھو۔ ‘‘ 6۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : (( من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار)) ۹؎ ۱ ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے ۔‘‘ امام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ) نے اس متواتر حدیث کی۹۰سے کچھ اوپر سندیں ذکر کی ہیں اور فرمایا ہے کہ امام ابن مندہ رحمہ اللہ (م۷۳۴ھ)نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ حدیث ۲۲ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔ ۲۰؎ اہل علم نے کہا ہے کہ یہ متواتر حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو جھوٹی روایات بیان کریں گے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے اسے شرعی ضرورت سمجھتے ہوئے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خبردار کر دیا اور ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی کہ خبروں کی تحقیق دین کا حصہ ہے ، اس لیے انہیں اس میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے ۔ یہی باعث ہے کہ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوری دقت ِنظر کے ساتھ روایت قبول کرنے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا ۔ بعد ازاں تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ بھی اسی نہج پر چلتے رہے ۔ ٭ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے لیے محض وعیدیں ہی بیان نہیں کیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر جرح وتعدیل کا باب بھی کھول دیا تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے رواۃ کی اچھائی یا برائی بیان کرنے میں کوئی حرج نہ رہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ لوگوں کی جرح بھی ثابت ہے اور تعدیل بھی۔ ’جرح‘ کے حوالے سے صحیح بخاری کی یہ حدیث قابل ذکر ہے : عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت:((استأذن رجل علی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فقال ائذنوا لہ بئس أخو العشیرۃ أو ابن العشیرۃ فلما دخل ألان لہ الکلام قلت یا رسول اللّٰہ قلت الذی قلت ثم ألنت لہ الکلام قال أی عائشۃ ! إن شر الناس من ترکہ الناس أو ودعہ الناس اتقاء فحشہ)) ۲۱؎ ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے اسے اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ فلاں قبیلے کا برا آدمی ہے ۔ جب وہ شخص اندر آیا تو آپ نے اس کے ساتھ بڑی نرمی سے گفتگو کی ۔ (جب وہ چلا گیا تو) میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! آپ کو اس کے متعلق جو کچھ کہنا تھا وہ آپ نے کہا پھر (جب وہ آیا تو) آپ نے اس کے ساتھ نہایت نرم انداز میں گفتگو فرمائی ؟ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ ! وہ شخص بدترین ہے جسے اس کی بدکلامی کے ڈر سے لوگ چھوڑ دیں ۔ ‘‘ ٭ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ)نے یہ روایت نقل کی ہے اور اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے خود جرح وتعدیل کی ہے۔۲۲؎ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۶ ھ) نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث کفاروفساق اور ان جیسے لوگوں کی غیبت کے جواز میں بنیادی