کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 33
تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے ۔ ‘‘ ٭ امام ابن کثیر رحمہ اللہ (م ۷۷۴ ھ) نے فرمایا ہے: ’’اس آیت میں ان جلد باز لوگوں کو روکا جا رہا ہے جو امن یا خوف کی کوئی خبر ملتے ہی اسے بلاتحقیق آگے پھیلانا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ممکن ہے وہ خبر بالکل ہی غلط ہو ۔ ‘‘ ۱۱؎ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خبروں کی تحقیق وتفتیش کا حکم دیا کرتے تھے بالخصوص جب کفارومنافقین رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ، آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم یا آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کے متعلق کوئی جھوٹی خبر پھیلانے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس کی ایک مثال واقعۂ افک بھی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے اظہار ِبرائت کے طور پر قرآن کریم کی سورۃ النور میں کیا ہے ۔ ارشاد فرمایا: ﴿ إِنَّ الَّذِینَ جَاؤُوا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنکُمْ لَا تَحْسَبُوہُ شَرًّا لَّکُم بَلْ ھُوَخَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرئٍ مِّنْھُم مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِی تَوَلَّی کِبْرَہُ مِنْھُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیمٌ لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِھِمْ خَیْرًا وَقَالُوا ھَذَا إِفْکٌ مُّبِینٌ لَوْلَا جَاؤُوا عَلَیْہِ بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاء فَإِذْ لَمْ یَأْتُوا بِالشُّہَدَاء فَأُوْلَئِکَ عِندَ اللّٰہ ھُمُ الْکَاذِبُونَ﴾۱۲؎ ’’جو لوگ یہ بہت بڑا بہتا ن باندھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے ۔ تم اسے پنے لیے برا نہ سمجھو ، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے اس کے لیے عذاب بھی بہت ہی بڑا ہے ۔ اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے ۔ وہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے ؟ اور جب گواہ نہیں لائے تو یہ بہتان باز لوگ یقینا اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں ۔ ‘‘ اس واقعہ کو بالتفصیل امام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ)نے اپنی صحیح میں ذکر فرمایا ہے ۔ ۱۳؎ علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے متعدد فرامین میں جہاں سنی سنائی بات بلاتحقیق آگے بیان کرنے کی ممانعت موجود ہے وہاں جھوٹی خبر پھیلانے پر سخت وعید بھی بیان ہوئی ہے ۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند ارشادات ِعالیہ حسب ذیل ہیں : 1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : (( کفی بالمرء اثما أن یحدث بکل ما سمع)) ۱۴؎ ’’آدمی کے گناہگارہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے ۔ ‘‘ 2۔ صحیح مسلم کی ہی ایک دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں : (( بحسب المرء من الکذب أن یحدّث بکل ما سمع)) ۱۵؎ ’’آدمی کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے ۔ ‘‘ 3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : (( یکون فی آخر الزمان دجالون کذابون یاتونکم من الاحادیث بما لم تسمعوا أنتم ولا آبائکم فایاکم وایاہم لا یضلونکم ولا یفتنونکم)) ۱۶؎ ’’آخری زمانے میں ایسے جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی روایات لائیں گے جن کو نہ تم نے سنا ہو گا اور نہ تمہارے آباؤ اجداد نے ۔ تم ان سے دور رہنا وہ تم کوہرگز گمراہی اور فتنہ میں مبتلا نہ کرنے پائیں ۔ ‘‘