کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 32
’’جان لو کہ (اللہ تمہیں توفیق دے) جو شخص صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور ثقہ اور متہم راویوں کو پہچانتا ہو اس پر واجب ہے کہ صرف وہ حدیث روایت کرے جس کی اصل صحیح ہو اور اسے نقل کرنے والے وہ لوگ ہوں جن کا عیب فاش نہ ہو اور وہ ان لوگوں کی روایت سے بچے جن پر تہمت لگائی گئی ہے یا جو ہٹ دھرم بدعتی ہیں اور یہ جو کچھ ہم نے کہاہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ’’ اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو ، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں تکلیف پہنچاؤ ، پھر تمہیں اپنے کیے پر بچھتانہ پڑے ۔‘‘ ٭ ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْ أَرَأَیْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰہ أَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَھُمْ شِرْکٌ فِی السَّمَاوَاتِ ائْتُونِی بِکِتَابٍ مِّن قَبْلِ ھَذَا أَوْ أَثَارَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ﴾۷؎ ’’کہو کہ بھلاتم نے ان چیزوں کو دیکھا ہے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ۔ مجھے بھی دکھاؤ کہ انہوں نے کونسی زمین پیدا کی ہے یا آسمان میں ان کی شرکت ہے ۔ اگرسچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب میرے پاس لاؤ یا علم (انبیاء) میں سے کچھ منقول چلا آ رہا ہو تو اسے پیش کرو ۔‘‘ اس آیت میں أثارۃ کی اصل ’ اثر ‘ ہے جس کے معنی ’روایت ‘ ہیں ۔ اس کے مستعمل مصدر تین ہیں:أثرۃٌ ، أثارۃٌ اور أثر۔ لغت کی معروف کتاب قاموس میں ہے: الأثرۃ،المکرمۃ المتوارثۃ کالماثرۃ والمأثرۃ والبقیۃ من العلم تؤثر کالأثرۃ والأثارۃ ۸؎ ’’ اُثرۃ اس وصف کو کہتے ہیں جو آباؤاجداد کی جانب سے اولاد کی طرف منتقل ہوتا چلا آتا ہو ۔ اسی طرح اس بقیہ علم کو بھی کہتے ہیں جو منقول ہوتا چلا آتا ہو جیسا کہ اَثرۃ اور اثارۃ کا مفہوم ہے۔ ‘‘ ٭ لفظ أثارۃکی تفسیر میں امام شوکانی رحمہ اللہ (م ۱۶۵۰ ھ) نے فرمایا ہے : أصل الکلمۃ من الأثر ،وھی الروایۃ یقال:أثرت الحدیث آثرہ وأثرہ وأثارۃ وأثراً:اذا ذکرتہ عن غیرک، وقال عطاء أو شیء تاثرونہ عن نبی کان قبل محمد صلي اللّٰه عليه وسلم قال مقاتل أو روایۃ من علم الانبیاء ۹؎ ’’یہ لفظ اثر کے مادے سے ہے جب کسی دوسرے سے بات نقل کی جائے اسی موقع پر کلمہ آثرت الحدیث ، آثرہ ،أثرہ ، اثارہ اور اثر بولا جاتا ہے ۔ تابعی عطاء رحمہ اللہ (آیت کی توضیح میں ) کہتے ہیں کہ یا کوئی ایسی چیز پیش کرو جس کو تم رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے پہلے کسی نبی سے روایت کرتے ہو ۔ مقاتل مفسر رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) کہتے ہیں یا علم الانبیاء میں سے کوئی روایت پیش کرو ۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا آیت میں موجود لفظ اثارۃ میں نقل وروایت کا مفہوم بھی داخل ہے اور چونکہ کسی بھی قدیم علم کی روایت رواۃ کے تسلسل کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی اس لیے سند کا اہتمام ضروری ہے اور سند ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی بھی خبر وروایت کی تحقیق وتفتیش کی جا سکتی ہے ۔ ٭ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَإِذَا جَاء ھُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِی الأَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْھُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلاً ﴾ ۱۰؎ ’’جب بھی انہیں کوئی امن یا خوف کی خبر ملتی ہے تو وہ اسے مشہور کرنا شروع کر دیتے ہیں ، حالانکہ اگر وہ اسے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جونتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ