کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 31
اِسناد ومتن کی تحقیق کا اِرتقاء اور نشوونما.... عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں تحقیق حدیث کی اصل بنیاد زمانہ رسالت کے آغاز ہی میں کتاب وسنت نے خود فراہم کردی ۔ ٭ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ ﴾ ۱؎ ’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ ۔ ‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبروں کی تحقیق کا حکم دیا ہے ۔ لہٰذا جب تک پوری تحقیق وتفتیش سے اصل واقعہ صاف طور پر معلوم نہ ہو جائے کوئی قدم نہیں اٹھاناچاہیے، کیونکہ عین ممکن ہے کہ کسی فاسق شخص نے کوئی جھوٹی بات کہہ دی ہو یا خود اس سے غلطی ہو ئی ہو اور تم اس کی خبر کے مطابق کوئی کام کر گزرو اور بعد میں تمہیں ندامت اٹھانی پڑے ۔۲؎ ٭ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں امام خازن رحمہ اللہ (م ۸۴۱ ھ) نے فرمایا ہے: اطلبوا بیان الأمر وانکشاف الحقیقۃ ولا تعتمدوا علی قول الفاسق۳؎ ’’معاملات کی وضاحت اور حقیقت کا انکشاف طلب کرو اور فاسق کی خبر پر اعتماد نہ کرو ۔ ‘‘ ٭ امام ثعالبی رحمہ اللہ (۸۷۶ ھ) نے نقل فرمایا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : ((التثبت من اللّٰہ والعجلۃ من الشیطان)) ۴؎ ’’(معاملات میں پوری تحقیق وتفتیش کرنا اور) جلدبازی نہ کرنا اللہ کی طرف سے ہے اور جلدبازی شیطان کی طرف سے ہے ۔ ‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م ۲۴۱ ھ) نے اس آیت کے شانِ نزول میں ایک روایت نقل فرمائی ہے کہ یہ آیت حارث بن ابی ضرار الخزاعی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جو اُم المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد ہیں ۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ادائیگی زکوٰۃ کا عہد بھی کیا تھا مگر بعد میں ان کے متعلق یہ مشہور ہو گیا کہ انہوں نے زکوٰۃ روک لی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے قتل کا پروگرام بنایا ہے ، قریب تھا کہ اس افواہ کی وجہ سے حارث کے ساتھ جنگ چھڑ جاتی مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کرائی تو معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے ۔۵؎ ٭ امام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ ھ) نے صحیح مسلم کے مقدمہ میں ایک عنوان یہ قائم کیا ہے: باب وجوب الروایۃ عن الثقات وترک الکذابین پھر اس باب کے تحت نقل فرمایا ہے : واعلم وفقک اللّٰہ تعالیٰ أن الواجب علی کل أحد عرف التمییز بین صحیح الروایات وسقیمھا وثقات الناقلین لھا من المتھمین أن لا یروی منھا الا ما عرف صحۃ مخارجہ والستارۃ فی ناقلیہ وأن یتقی منھا ما کان منھا عن أھل التھم والمعاندین من أھل البدع ، والدلیل علی أن الذی قلنا من ھذا ھو اللازم دون ما خالفہ قول اللّٰہ جل ذکرہ ﴿ یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ﴾ ۶؎